حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے تحریک انصاف میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی ہے ورنہ لوگ اب تحریک انصاف حکومت کو پہلی حکومتوں جیسا سمجھنے لگے تھے۔ اب لوگ تحریک انصاف کو چھوڑکر جا رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کے ساتھ وفاداری کی یہ ایک اعلیٰ مثال ہے۔
کرکٹ میچ میں پاکستان کا بھارت سے ہارنا ایک صدمے کی طرح ہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ آج وہ شخص وزیراعظم ہے جس کی کپتانی میں ہم نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنا تھا۔ اب عمران خان کو پوری قوم کے کپتان کے طورپر کس طرح محسوس ہوتا ہے۔
عمران خان نے تجویز دی تھی کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرو مگر سرفراز نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کی دعوت بھارت کو دیدی اور خود کرکٹ کے میدان میں جمائیاں لیتا رہا۔ لوگ حیران ہیں کہ وہ آخر کئی راتوں سے نہیں سویا تھا۔ اس کا رویہ اور شخصیت کا تاثر بہت تھکا تھکا سا تھا۔ کاش یہ تھکن نہ ہوتی اور کوئی لگن سرفراز کے اندر پاکستان کو باعزت کرنے کی آرزو کی طرح ہوتی۔
پاکستانی قوم کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی ملک سے ہار جائیں مگر بھارت سے نہ ہاریں۔ ہم بھارت سے ہارے اور ڈٹ کر ہارے۔ جس طرح ہارنے کا حق ہوتا ہے۔
سرفراز سرعام یہ بات کہتا ہے کہ شکست کیلئے مجھے ٹیم سے نکالا گیا تو پھر اور بھی بہت کھلاڑی نکالے جائیں گے۔ میں اکیلا نہیں جائوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے پہلے بھی ہارنے کا علم تھا۔ اس نے کھلے عام کہا ٹیم میں گروپنگ ہے۔ ٹیم میں گروپنگ کپتان کی کمزوری ہے۔ ٹیم میں بڑی گروپنگ ہے۔ ہمیں پہلے بھی اس گروپنگ نے ذلیل کروایا۔ یہ بات کپتان کی زبان سے اچھی نہیں لگتی۔ ہارنے کے بعد آئندہ دنوں کی کرکٹ سیاست پر بھی سرفراز کا ردعمل اپنے اندر کئی راز رکھتا ہے۔ ان رازوں سے کون پردہ اٹھائے گا۔ گروپنگ اور دھینگا مشتی کی پیشگوئی سرفراز نے پہلے ہی کر دی ہے۔ وہ کرکٹ کی سیاست سے ہوتے ہوئے عمران تک پہنچنا چاہتا ہے۔
پہلے سرفراز ہمیں اچھا لگتا تھا۔ کھلاڑی بیان اور متنازعہ بیانات نہیں دیتا۔ کھلاڑی اب صرف کھلواڑ کرنے میں ماہر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم سرفراز کے اس رویئے کی مذمت کرتے ہیں۔ اتفاق سے وزیراعظم عمران خان بھی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے ہیں۔ انہوں نے ہمسایہ اور اپنے حریف ملک بھارت کے اندر پاکستان کو فتح دلوائی تھی۔ اب سرفراز کو کیا ہوا ہے۔
سنا ہے وہ پاکستان کا کپتان یعنی وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔
جب بھی کوئی بیان شائع ہوتا تو پرویز ملک اور عمران نذیرایک ساتھ دونوں کے نام سے شائع ہوتا۔ نجانے سیاست کی ایک شائستہ خاتون شائستہ پرویز ملک اپنے شوہر کے ساتھ سیاسی بیان میں شامل کیوں نہیں ہوتی۔ عمران نذیر کے ساتھ ایک زمانے میں دوستی تھی۔ اب وہ بڑا سیاستدان بن گیا ہے اور ہم سچے سیاستدانوں کے دوست ہیں۔
وہ مجھے ایک بہت اچھی اور کامیاب این جی او فلاحی تنظیم ام نصرت میں دو تین بار نظر آئے۔ میں خوش ہوا کہ وہ ابھی تک فلاحی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ پھر وہ یہاں کبھی نہیں آئے۔ میں اب بھی انہیں دوست رکھتا ہوں مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کسی کے بارے میں کہا گیا کہ میں تو اسے دوست سمجھتا ہوں۔ وہ نجانے مجھے کیا سمجھتا ہے۔ وہ ام نصرت کے پہلے دفتر میں کئی بار دیکھے گئے۔ اب مائرہ اور عمیر نئے اچھے دفتر میں آگئے ہیں جہاں تھیلسیمیا کے مریض بچوں کی اچھی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ عمران نذیر کو بھی شاید یہ بات معلوم ہو گئی ہوگی۔ انہوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ ان کیلئے میرا خیال بہت اچھا ہے۔ وہ یہ بتا دیں کہ ان کے ساتھ ملاقات کہاں ہوسکتی ہے۔ کوئی ایسی جگہ جہاں ہم جیسے لوگ آسکیں۔ محبت کرنے والوں کو بھی کوئی ٹھکانہ تو ملے۔
ام نصرت کی انچارج خاتون مائرہ بہت اچھے دل کی مالک ہے۔ بچوں سے پیار کرتی ہے۔ تھیلسیمیا کے مریض بچوں سے بہت پیار کرتی ہے۔ یہاں بچوں کو تازہ اور اچھا خون لگایا جاتا ہے۔ یہاں ایسے غریب بچوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہاں مفت سپلائی اچھے خون کی بہت آسانی سے مل جاتی ہے۔ مائرہ کے شوہر عمر خالد بہت محنتی نوجوان ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کی آسانی کیلئے بڑی روانی سے کام کرتے ہیں۔
انہیں ایک فلاحی اور نیک کام کیلئے کبھی کبھی بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔
بہت اچھا لگتا ہے کہ مائرہ تو ام نصرت کی انچارج کے طورپر دفتر سنبھالتی ہیں مگر عمیر خالد دفتر سے باہر کی مصروفیات میں گم رہتا ہے۔ تنظیم اور دفتر کیلئے ساری بھاگ دوڑ اس کی ذمہ داری ہے مگر دفتر میں وہ ایک ملازم کی طرح مائرہ کے سامنے موجود رہتا ہے۔ میرے لئے خوشی یہ ہے کہ میں بھی جب ام نصرت جائوں تو اس کے ساتھ بیٹھتا ہوں۔
مجھے خوشی ہوئی کہ مجھے چند دن پہلے بیگم جسٹس قیوم محترمہ رخسانہ قیوم کا فون آیا تھا اور وہ اس فلاحی تنظیم کے حوالے سے بات کر رہی تھیں۔ وہ اپنے طورپر مائرہ اور عمیر کیلئے کچھ تعاون کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کسی دن وقت نکال کر ام نصرت کی وزٹ کریں۔ دفتر کا ماحول دیکھیں اور بچوں سے ملاقات کریں۔ مجھے معلوم ہوا تو میں بھی دفتر میں موجود ہوں گا۔
فلاحی معاملات میں دلچسپی لینا چاہئے۔ میرے خیال میں غریبوں کیلئے کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے دردمندی بھی فلاحی کام ہے۔ برادرم ڈاکٹر بابر اعوان کیلئے بھی مبارکباد عرض ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024