جمہوریت کی بقاء و استحکام کیلئے آج قومی افہام و تفہیم کی زیادہ ضرورت ہے
وزیراعظم عمران کا ویڈیو پیغام میں کرپشن کرنیوالوں کو نہ چھوڑنے کا اعلان اور اپوزیشن کے ساتھ میثاق معیشت پر اتفاق
وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کرنیوالوں کو نہ چھوڑنے کے عزم کااعادہ کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکس چوری بھی روکنی ہے۔ جمعۃ المبارک کی شام ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر قوم کے نام نشریاتی ویڈیو پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکس چوری ختم کرنے کیلئے انہیں عوام کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ وہ اثاثے ڈکلیئر کرنے کیلئے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائیں۔ انکے بقول گزشتہ دس سال میں پاکستان کا قرضہ چھ ہزار سے 30 ہزار ارب تک چلا گیا۔ ہم اثاثے ڈکلیئر کرنے کیلئے ایک اہم سکیم لائے ہیں۔ میں پاکستانیوں سے باربار کہہ چکا ہوں کہ اگر حکومت اور عوام ملیں گے نہیں تو ہم قرضوں کے دلدل سے نہیں نکل سکتے اور اپنے بچوں کو غربت سے نہیں نکال سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے سال جتنا بھی ٹیکس اکٹھا کیا‘ اس میں سے آدھا ہمیں ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے لینا پڑا جبکہ ہمیں قرض بھی ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے لینا پڑرہا ہے۔ ہمیں اس حالت کو کرپشن اور ٹیکس چوری نے پہنچایا ہے۔ اب ٹیکس چوری کو بند کرنے کیلئے ہمیں قوم کی ضرورت ہے۔ اگر قوم فیصلہ کرے تو ہم ہر سال آٹھ ہزار ارب روپے سے زیادہ اکٹھا کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمارے تمام مسائل حل ہو جائینگے۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے حزب اختلاف کے ساتھ میثاق معیشت کی منظوری دیدی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں‘ اسکے مطابق ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے میثاق معیشت کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے اس اعلیٰ سطحی پارلیمانی کمیٹی کے بارے میں سپیکر قومی اسمبلی سے مشاورت کی ہے جس میں سینٹ اور قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بھی اس امر کی تصدیق کی اور بتایا کہ وزیراعظم عمران خان میثاق معیشت کیلئے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کو تیار ہیں جس کیلئے وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج ملک بدترین اقتصادی‘ معاشی اور مالیاتی بحرانوں سے دوچار ہے جن سے عہدہ برأ ہونے کیلئے حکومت کو بہرصورت سخت گیر اقدامات اٹھانا ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے ہمیں کرپشن کلچر بھی ورثے میں ملا جس کی بنیاد پر مفاد پرست طبقات نے اس ارض وطن کو شیرمادر کی طرح چوسنا‘ بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ جعلی کلیموں کے ذریعے متروکہ وقف املاک کی عملاً لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ مفاد پرست طبقات بیٹھے بٹھائے نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی کے مصداق بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے۔ یہی طبقات انگریزوں کی چاکری کرکے اسکی گھوڑی پال سکیم سے مستفید ہوتے ہوئے کئی مربعوں کے مالک زمینداروں کے روپ میں سامنے آئے اور استحصالی کلاس کا حصہ بنے تھے۔ چنانچہ ناجائز بخشیئوں کی بنیاد پر دھن دولت سے مالا مال ہونیوالے انہی طبقات کی اقتدار کے ایوانوں تک بھی رسائی ہو گئی جنہوں نے بانیٔ پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کی تشکیل سے متعلق انکے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیئے اور اسکے برعکس اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی کوششوں میں مگن ہوگئے۔ انہی مفاد پرست طبقات نے حکمران اشرافیہ کلاس کا روپ دھار کر سسٹم کو اپنی باندی بنایا اور بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کے قیام پاکستان کے مقاصد گہنا دیئے۔ یہ طبقات جمہوری یا غیرجمہوری ہر حکومت میں اپنی شمولیت کے راستے نکالتے رہے ہیں نتیجتاً سلطانیٔ جمہور کے ثمرات بھی یہی طبقات سمیٹتے رہے اور غیرجمہوری حکمرانیوں میں بھی ماورائے آئین اقتدار والوں کو اپنے کندھے فراہم کرکے یہی طبقات فیض یاب ہوتے رہے جن کی لوٹ مار نے قومی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہونے دیا اور بیرونی قرضوں کی لت ڈال کر اس وطن عزیز کو قرضہ دینے والے غیرملکی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ کر انکی ہر جائز ناجائز شرط سر خم کرکے تسلیم کرنے کی روایت ڈال دی گئی۔ قومی خودداری و خودمختاری کو بٹہ لگانے والی ایسی شرائط کے عوض بیرونی قرضے لینے کا سلسلہ جرنیلی آمر ایوب خان کے دور سے شروع ہوا تھا جو ہنوز جاری ہے اور آج ہزارہا ارب روپے کے بیرونی قرض کے بوجھ تلے دبے اس ملک کا ہر پیدا ہونیوالا بچہ جرم بے گناہی کی شکل میں اپنے سر پر لاکھ سوا لاکھ روپے کا قرضہ لاد کر اس دنیا میں آتا ہے۔ یہ تلخ حقائق محض لفاظی نہیں بلکہ ہمارے اقتصادی ماہرین کی مرتب کردہ رپورٹوں میں موجود ہیں جبکہ ’’سٹیٹس کو‘‘ والے اس سسٹم کو توڑنے کیلئے بھی اسی بنیاد پر کوئی تردد نہیں ہوا کہ ملک کو اس حالت تک پہنچانے والی مفاد پرستوں کی حکمران اشرافیہ کلاس محض نام اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ ہر حکومت کا حصہ رہی ہے جنہوں نے منتخب ایوانوں کو عوام کی فلاح اور ملکی و قومی ترقی کیلئے بروئے کار لانے کے بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنائے رکھا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حکمران اشرافیہ طبقات کا مسلط کردہ ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے اور معاشرے میں پھیلی ناانصافیوں‘ اقربا پروریوں اور کرپشن کلچر کے تدارک کیلئے 23 سال قبل سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور ایک نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف تشکیل دیکر اس پلیٹ فارم پر سسٹم کی تبدیلی اور نئے پاکستان کی مہم کا آغاز کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ قوم کو ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی مملکت کیلئے متحرک کرتے رہے جو درحقیقت بانیٔ پاکستان قائداعظم کے خواب کی ہی تعبیر تھی۔ بلاشبہ قوم بھی کرپشن کلچر اور ناانصافیوں میں لتھڑے انتخابی‘ سیاسی‘ عدالتی نظام میں تبدیلی کی متمنی تھی اس لئے اسے عمران خان کے نعروں میں کشش نظر آئی اور اس نے ملک کی اقتصادی حالت بہتر بنانے‘ اپنی غربت‘ پسماندگی دور کرنے اور ادارہ جاتی ناانصافیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے عمران خان اور انکی پارٹی پی ٹی آئی کو وفاقی اور صوبائی اقتدار کا مینڈیٹ دے دیا جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی نے بعض دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر وفاق اور دو صوبوں میں اپنی حکومت تشکیل دے دی تو اپنے گوناں گوں مسائل میں گھرے عوام کو انکے ساتھ مزید توقعات وابستہ ہوگئیں۔
وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت نے یقیناً اپنے منشور اور مینڈیٹ کے تقاضوں کے مطابق ملک کو کرپشن کلچر سے نجات دلانے کے کام کا شروع دن سے ہی آغاز کر دیا جس کیلئے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونیوالا احتساب کا خودمختار ادارہ نیب پہلے ہی سرگرم عمل تھا‘ اصولی طور پر پی ٹی آئی حکومت کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات جلد نمٹانے کیلئے نیب کی معاونت کرنی چاہیے تھی جس کیلئے حکومتی مشینری اور وسائل موجود ہیں جبکہ حکومت کی بنیادی توجہ عوام کے گھمبیر ہوتے روٹی‘ روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل کے حل پر مرکوز ہونی چاہیے تھی۔ اسکے برعکس وزیراعظم عمران خان اور انکی کابینہ کے ارکان نے شدومد کے ساتھ کسی چور ڈاکو اور کرپٹ کو نہ چھوڑنے کے آئے روز نعرے لگانا شروع کر دیئے جس سے نیب کے مقدمات میں ملوث اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو اپنے مقدمات کے حوالے سے حکومت اور نیب کی ملی بھگت اور اس بنیاد پر انتقامی سیاسی کارروائیوں کے الزامات لگانے کا موقع مل گیا۔ اس سے بہرصورت نیب کا شفاف کردار ضرور متاثر ہوا۔ دوسری جانب اپنے دکھوں کے مداوا کیلئے وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت سے توقعات باندھنے والے عوام کو بھی اپنے غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں فوری طور پر ریلیف نہ مل سکا جبکہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں انکے یہ مسائل مزید بڑھنے لگے۔
اگر حکومت عوام کو ریلیف دینے والے اقدامات اٹھا لیتی اور مزید مہنگائی کے آگے بند باندھ دیتی تو اس پر عوام کا اعتماد کبھی متزلزل نہ ہوتا مگر حکومت نے نہ صرف ڈالر کو اڑان بھرنے کا موقع دیکر‘ دو ضمنی میزانیوں میں بعض نئے ٹیکس لگا کر اور بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم کے نرخ بتدریج بڑھا کر مہنگائی کو بے لگام کیا بلکہ آئی ایم ایف کے قرض کیلئے اسکی ناروا شرائط تسلیم کرکے عوام کو مہنگائی کے دلدل کی جانب مزید دھکیل دیا‘ یہی وہ صورتحال ہے جو ٹکڑوں میں بٹی اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا موقع فراہم کرنے کا باعث بنی ہے چنانچہ آج اپوزیشن حکومت کیخلاف طوفان اٹھانے کی تیاریاں مکمل کرچکی ہے جس کے قائدین آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو زرداری‘ مولانا فضل الرحمن حکومت کو چلنے نہ دینے اور اس کا پیش کردہ بجٹ منظور نہ ہونے دینے کے اعلانات کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں شہبازشریف‘ مریم نواز‘ خواجہ محمد آصف اور دوسرے اکابرین بھی دوبارہ جارحانہ انداز سیاست اختیار کرکے میدان عمل میں آچکے ہیں جو نیب کے ساتھ حکومت کو بھی رگید رہے ہیں۔ اس طرح آج ملک میں سیاسی محاذآرائی اور کشیدگی کی ایسی ہی فضا پیدا ہو چکی ہے‘ جو ماضی میں جمہوریت کی بساط الٹانے کا باعث بنتی رہی ہے۔ اسکے باوجود قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جس میں وزیراعظم خود نیب زدہ اپوزیشن قائدین کو بولنے نہ دینے اور انکے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے احکام صادر کرچکے تھے‘ اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے اپنی بجٹ تقریر میں قومی معیشت کو سنبھالنے کیلئے حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی اور پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے بھی ماضی کو بھلا کر آگے چلنے کی بات کی۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں کرپشن کرنیوالوں کو کسی صورت نہ چھوڑنے کے عزم کا ہی اعادہ کیا ہے اور اس مقصد کیلئے عوام سے معاونت کی اپیل کی ہے تاہم یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کے موقع پر قومی سیاسی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے پر اتفاق کیا اور اپوزیشن کے ساتھ میثاق معیشت کیلئے بھی آمادگی ظاہر کردی۔ یہی آج وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کو درپیش سنگین اقتصادی‘ دفاعی اور مالیاتی چیلنجوں سے قومی اتفاق رائے اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ہی عہدہ برأ ہوا جا سکتا ہے۔ اگر ماضی جیسی محاذآرائی کی سیاست کو فروغ دیا جاتا رہے گا اور افہام و تفہیم کے بجائے اپنی اپنی انائوں کو ملحوظ خاصر رکھا جائیگا تو ماضی کی طرح جمہوریت کی بساط الٹایا جانا اب بھی قوم کے مقدر کا حصہ بننے کا خدشہ لاحق رہے گاجس میں باہم دست و گریباں قومی سیاسی قائدین میں سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومتی اقدامات سے بڑھنے والی مہنگائی سے عوام بھی اس قدر زچ ہو چکے ہیں کہ انہیں حکومت کیخلاف کسی ماورائے آئین اقدام پر قطعاً دکھ نہیں ہوگا۔ اگر آج بجٹ کی منظوری سے پہلے ہی گھی کے ٹین اور میدے کی بوری میں مزید ایک ایک سو روپے کا اضافہ ہوچکا ہے اور پٹرولیم مصنوعات بھی سات روپے لٹر تک مزید مہنگی ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے تو حکومت اپوزیشن کی ممکنہ تحریک میں کس گیدڑ سنگھی کے تحت عوام کو اپنے ساتھ وابستہ رکھ پائے گی۔ اس تناظر میں قومی افہام و تفہیم کا راستہ ہی حکومت کی بقاء اور جمہوریت کے استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ خدا کرے کہ اپوزیشن کے ساتھ میثاق جمہوریت کیلئے حکومت میں پیدا ہونیوالے اتفاق رائے کو عملی قالب میں ڈھال دیا جائے تاکہ غیرجمہوری عناصر کو سسٹم کیخلاف کسی قسم کی سازشوں کا موقع ہی نہ مل سکے۔