25 سال پہلے میں نے اپنا سفر نامہ… سفر حرمین لکھا تو سوچا اس کو اردو ڈائجسٹ میں چھپوایا جائے۔ لہٰذا میں الطاف حسن قریشی کے دفتر پہنچ گئی۔ انہوں نے میری بہت عزت کی اور سفر سرمین کے سیریل چھاپنے کی حامی بھر دی… میں غیر مطمئن سی گھر واپس آ گئی۔ کیونکہ میں جانتی تھی بہت بڑے صحافی ہیں، مشکل سے ہی میرا سیریل اردو ڈائجسٹ میں چھاپیں… میری خوشی کی انتہا تھی جب انہوں نے میرا سیریل اردو ڈائجسٹ میں چھاپنا شروع کر دیا یہ تو گزشتہ 25 سالوں کی بات تھی… ابھی کچھ روز ہوئے ہیں کہ انکی شخصیت پر چھپنے والی کتاب ’’الطاف قریشی مدیر اعلیٰ اردو ڈائجسٹ کی شخصیت اور صحافی و ادبی خدمات‘‘ میں طاہر مسعود نے ان پر چھپنے والے مضامین کو ایک کتاب کی صورت میں پیش کیا ہے۔ڈاکٹر طاہر مسعود نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔ اردو ڈائجسٹ ہر اعتبار سے دوسرے وسائل سے مختلف ہے۔ اس کے اندر وہ کچھ تھا جو کہیں اور نہیں تھا۔ سویرا جیسے ادبی رسالے بہت تھے اردو ڈائجسٹ کا جادو اسلئے سر چڑھ کر بولتا تھا کہ ایک حقیقت اور رومان کی آمیزش سے قلب و ذہن کی تہذیب اس طور سے کرتا تھا کہ اس کے نقوش و اثرات مٹاتے نہیں مٹتے تھے۔
بقول رانا حامد علی کے اردو ڈائجسٹ اس لئے بھی محبوب ہے اس نے ہمارے محبوب قومی زبان کی بڑے کامیاب طریقے سے تبلیغ کی ہے۔ شائد آپ لوگوں کو معلوم نہ ہو جن نوجوان کے ہاتھوں، انگریزی رسالے نظر آتے تھے۔ اب ان ہاتھوں میں اردو ڈائجسٹ بھی نظر آتا۔ مجھے امید ہے۔ اس انقلاب کے نتائج بڑے دور رس ہوں گے۔
الطاف قریشی صاحب نے نئے لکھنے والوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ڈائجسٹ کو نکلے ہوئے 57 سال ہو گئے ہیں۔ اور وہ خود 87 سال کے ہو گئے ہیں ابھی تک قائم دائم ہیں۔ اس کی وجہ اردو ڈائجسٹ کی کامیابی ہے۔ ان کے پڑھنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے نئے لکھنے والوں کو بڑی محبت اور شفقت سے متعارف کروایا ہے۔
الطاف صاحب کا صحافت میں بہت بڑا مقام ہے۔ روزنامہ جسارت میں بھی خوب لکھا ۔ ایک خاص اسلوب اپنایا ۔ اس سے پہلے کسی کا ایسا اسلوب دیکھنے میں نہیں آیا۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ قاری آج بھی ان کی تحریروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ ان کے اندر خاص جاذبیت ہے ، رکھ رکھائو اور لکھنے کا سلیقہ ہے۔ جو کسی اور میں ایسا نہیں۔
وہ واقعی عظیم انسان ہیں۔ دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کسی طرح سے ان کو فیض یاب کیا جا سکے۔ ان کے دل میں دوسروں کیلئے شفقت کوٹ کوٹ بڑی ہے۔ آج کے دور میں محبت اور شفقت کا فقدان ہے۔ لیکن الطاف حسن قریشی نے جس طرح ساری زندگی محنت اور مشقت کی زندگی گزاری اور دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا وہ بڑے حساس دل کے مالک ہو گئے۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بڑی عزت افزائی سے پیش آتے کبھی ان کی ہتک نہ کرتے وہ خود محنت کرنے والوں میں سے ایک ہیں اور دوسروں کو بھی محنت کا عادی بنا دیتے ہیں۔
پاکستانیت اور نظریہ پاکستان جسکی بنیاد اسلام ہے۔ اس کے لئے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ ابھی پاکستان نیا نیا بنا تھا اور صحافت جاگ رہی تھی اس مرحلہ پر الطاف حسن قریشی صاحب نے اردو ڈائجسٹ کا اجرا اپنے بھائی اعجاز قریشی کے ساتھ ملکر کیا۔ قوم پر بڑا احسان کیا اور مختلف ٹیمیں بنتی رہیں باقی ڈائجسٹوں کی نسبت اردو ڈائجسٹ کی قدر منزلت بڑھتی گئی۔اس کتاب میں محمد طاہر لکھتے ہیں اردو ڈائجسٹ کی چند جہتیں نہایت ہی اہم ہیں۔ اس نے شائیگی کو فروغ دیا۔ اردو زبان کی خدمت کی اپنا مشن تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔ آغاز سے ہی یہ اپنے اندر ایک بین الاقوامیت کا تاثر رکھتا تھا الطاف صاحب ایک نئی جہت کے بانی ہیں۔اودو ڈائجسٹ نے آج بھی پڑھے لکھے لوگوں میں اپنا مقام پیدا کیا ہوا ہے۔کچھ عرصہ قبل پی ٹی وی پروگرام میں الطاف حسن قریشی صاحب سے انٹرویو لیا… میزبان فائزہ بخاری نے صحافت میں ان کی خدمات گنواتے ہوئے ناظرین کو بتایا انہوں نے روایت اور جدت کے امتزاج سے نئے دبستان کی بنیاد رکھی، اور انٹرویو میں خاص اسلوب ایجاد کیا جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔عطاء الحق قاسمی نے اپنے مخصوص انداز میں الطاف صاحب کے صحافتی مقام اور مرتبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔ انہیں استاد الاساتذہ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں کی ایک نئی نسل ایجاد کی ہے۔ آپ جب انٹرویو کرتے ہیں۔ تو آر کائیو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی تحقیق کرنے والے لوگوں کو لازما ان انٹرویو سے مدد لینی ہو گی۔ میں الطاف حسن قریشی صاحب کو داد تحسین دیتے ہوئے کہتی ہوں کہ ان کا قلم ملک اور قوم کی بہتری کیلئے ہمیشہ چلتا رہے اور وہ اسلام کا پرچار کرتے رہیں (آمین)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024