مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد پیش آنے والے حالات و واقعات کا تسلسل ہے۔ بھارتی حکومت کا یہ اقدام کوئی انہونی بات نہیں۔ اس سے قبل سات مرتبہ وہاں گورنر راج لگایا جاچکا ہے تاہم اس بار جس نیت سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے‘ وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ برہان مظفر وانی کی عزیمت اور 8جولائی 2016ء کو شہادت کی بدولت کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو نیا جوش و جذبہ حاصل ہوا اور بالخصوص کشمیری نوجوان از سر نو سفاک بھارتی فوج کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ قابض بھارتی فوج کی جانب سے پیلٹ گنوں اور دیگر مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال بھی اُن کے جذبۂ حریت کو سرد کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ دراصل بھارتی ریاست گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار نریندر مودی نے 2014ء کے عام انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران علی الاعلان کہا تھا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کچل دے گا۔ جب سے ہندو توا اور انتہا پسندی کا علم بردار یہ شخص نئی دہلی کے راج سنگھاسن پر براجمان ہوا ہے‘ تب سے مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام پر جبر و تشدد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ کنٹرول لائن پر بھی بھارت کی طرف سے 2003ء میں ہونے والے پاک بھارت جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ گزشتہ سال 2017ء میں بھارت 1300سے زائد بار اور 2018ء میں اب تک 190سے زائد مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ کنٹرول لائن پر تعینات بھارتی فوج کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کے باعث درجنوں پاکستانی شہید اور بلامبالغہ سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ نریندر مودی کی سربراہی میں قائم بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت 2019ء کے عام انتخابات سے قبل کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو ہر صورت ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمان دشمن انتہا پسند ہندوئوں کے ووٹ حاصل کرکے دوبارہ برسراقتدار آسکے۔ ریاستی طاقت کے بے محابا استعمال کے ساتھ وہ سیاسی چالیں بھی چل رہی ہے۔ دریائے جہلم پر بنائے گئے متنازع کشن گنگا ڈیم کے 19مئی 2018ء کو افتتاح کے موقع پر نریندر مودی نے پہلے سے طے شدہ منصوبے اور مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت کی ملی بھگت سے رمضان المبارک کے تحفے کے طور پر وہاں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا تاکہ اس کے پردے میں کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔ کشمیری رہنمائوں سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے جنگ بندی کے اس اعلان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ محض بھارت کی طرف سے وقت گزاری کی ایک چال ہے۔ بہرحال بھارتی چیرہ دستیوں کے باعث کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کی بھارت سے نفرت میں روزبروز شدت آتی جارہی ہے اور وہ طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل بپن راوت نے بھی حال ہی میں کشمیر کے مسئلے کو عسکری طریقے سے حل کرنے کی بجائے اِس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بھارت کے دو آرمی چیفس ایسے ہی خیالات کا اظہار کرچکے ہیں تاہم مودی حکومت مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتی اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے حریت پسندوںکو بزور طاقت کچلنے اور کشمیر میں تعمیر و ترقی کو تمام مسائل کا حل تصور کرتی ہے۔ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی منظور کردہ 18قراردادیں بھی بھارت کے لئے پرِکاہ کے برابر وقعت نہیں رکھتیں۔ اَور تو اَور بھارتی حکومت نے 14جون 2018ء کو اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس آفس کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق جاری کردہ 49صفحات پر مشتمل رپورٹ اور اس میں ایک ’’کمیشن آف انکوائری‘‘ بنانے کی سفارش کو بھی بڑی ڈھٹائی سے مسترد کردیا ہے۔ یہ رپورٹ مودی سرکار کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے لیکن محاورتاً اس رپورٹ کی ابھی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ اس نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے اتحاد ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔نتیجتاً کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو 19جون 2018ء کو مستعفی ہونا پڑا اور وہاں 20جون کو گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ یہ اقدام اس لئے اٹھایا گیا کہ ٹاڈا(Terrorist and Disruptive Activities (Prevention) Act)جیسے ظالمانہ قوانین کی بنیاد پر بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی کھلی چھٹی دے دی جائے۔ موجودہ گورنر راج درحقیقت کشمیری مسلمانوں اور پاکستان کی عالمی سفارتکاری کے لئے سخت آزمائش کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ہے۔ صورت حال کی اس سنگین نوعیت کے پیش نظر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایک فکری نشست بعنوان ’’مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج … بھارت کی ایک اور پسپائی‘‘ کا انعقاد ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں کیا جس کی صدارت تحریک پاکستان ورکرزٹرسٹ کے چیئرمین چیف جسٹس(ر)میاں محبوب احمد نے کی۔ نشست سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر انچیف مجیب الرحمن شامی‘ روزنامہ نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی‘ روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی‘ عسکری امور کے ماہر میجر جنرل(ر)راحت لطیف‘ ممتاز کشمیری رہنما اور صدر نظریۂ پاکستان فورم آزاد جموں وکشمیر مولانا محمد شفیع جوش‘فاروق آزاد ‘غلام عباس میر‘ معروف دانشور سلمان عابد‘ پروفیسر محمد یوسف عرفان اور نوجوان صحافی حامد ولید نے بھارتی اقدام اور اس کے رد عمل میں پاکستان کے ممکنہ لائحہ عمل پر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ وہ اس کی تزویری اہمیت سے آگاہ تھے۔ کشمیری عوام نے بھارت کی طرف سے ہر قسم کے جبر و تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور اپنے مستقبل کو پاکستان کے ساتھ الحاق سے وابستہ کر رکھا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کسی انتہائی قابل شخصیت کو کشمیر پر اپنا نمائندہ یا سفیر مقرر کرے جو پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کو اجاگر کرے۔ پاکستان میں 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ اِن کا صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ بنیادوں پر انعقاد ضروری ہے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوششوں کی بجائے ہر سیاسی جماعت کو آزادی کے ساتھ اِن میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے۔ ایسا نہ ہوا تو کشمیر کاز کو سخت نقصان پہنچے گا۔ مقررین نے آبروئے صحافت محترم مجید نظامی کی کشمیر کاز کے لئے خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اس امر پر اظہار اطمینان و مسرت کیا کہ ان کے فکری وارث مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انہی کے وضع کردہ راستے پر گامزن ہیں۔ اس موقع پر تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب محمد رفیق تارڑ نے اپنے پیغام میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے انسانیت سوز مظالم چونکہ کشمیری عوام کی
تحریک آزادی کو دبانے میں ناکام ہوگئے ہیں‘ اس لئے بھارتی حکومت نے وہاں گورنر راج نافذ کرکے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں لیکن انشاء اللہ یہ ہتھکنڈہ بھی ناکام ثابت ہوگا اور مقبوضہ وادی میں آزادی کا سورج طلوع ہوکر رہے گا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے جبکہ مولانا محمد شفیع جوش نے تحریک آزادیٔ کشمیر کی کامیابی کے لئے دعا کرائی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024