صاحب
شاعری مکان و لامکاں کی وسعتوں سے کہیں آگے کا منظر نامہ ہے۔ محبت کا گیت ہے جسے ہر راگ پر گایا توجاسکتا ہے لیکن اس راگ کی لے ہر دل پر نہیں بجتی۔ یوں تو ساٹھ کی دہائی میں زمین، تہذیب، سماج، انسان اور اس کے باطنی و خارجی مسائل کے تال میل سے ادب میں نئے اظہار ئیے نمو پانے لگے۔ نئی شاعری اوراس نئی شاعری سے مربوط جدت کا رنگ ڈھنگ لئے نئی شعری روایات نے نئی منزلوں کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ اگر ہم شاعری کی تاریخ ا±ٹھا کر دیکھیں تو حمدیہ کلام یوں تو شاعری کے آغاز ہی سے دونوں شاعری کے ساتھ ساتھ محوسفر دکھائی دیتا ہے لیکن اصل میں حمدیہ کلام اور حمدیہ مجموعے اتنے ہی ہیں جنہیں انگلیوں پر بآسانی گنا جاسکتا ہے۔ اگرچہ ہر شاعر نے حمد ضرور لکھی۔ لیکن حمدیہ مجموعہ خال خال ہی نظر آیا اور پھر معیاری حمدیہ مجموعے بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ عقیدت و محبت کا عنصر تو ان حمدیہ مجموعوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی مسلمان جب حمد ونعت لکھتا ہے تو عقیدہ و عقیدت کیساتھ والہانہ محبت کا اظہار کرتا ضرور نظر آتا ہے۔ ایسی محبت گو ازل سے اس کے خانہ دل میں جاگزیں ہے لیکن اب جب کہ شاعری نے نئی کروٹ لی ہے اور وجدان کی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہے تو خال خال ہی حمدیہ کلام اس جدیدرنگ کے ساتھ نظر آتا ہے۔ چند برس قبل حسن عباسی کے حمدیہ مجموعہ ”سائیں“ نے لوگوں کو چونکا دیا۔ نئی نئی تشبیہات، نئے نئے استعارے، منفردتعلیات اور پھر پرانے موضوع سخن کو جدید طرز سخن کا جادو اس ہنر مندی سے پہنایا کہ پڑھنے والے ششدر رہ گئے۔ قاری ایک دفعہ چونکا کہ اس ادا سے خدا سے مکالمہ اس کیلئے ایک نیا تجربہ تھا۔ خدا سے ہمکلامی کا انداز نرالہ تھا اور اب ”صاحب“ میں یہ انداز اور بھی نکھر کر سامنے آیا ہے۔ ہر شعر آیات کے نزول کی طرح صفحہ قرطاس پر موتیوں کی مانند بکھرا ہو انظر آتا ہے۔ بقول افلاطون۔شاعر ایک الہامی قوت کا حامل ہے۔
حسن عباسی کی شاعری پوری کی پوری الہام ہے۔
دیکھ پھر سے ٹوٹا تارا صاحب کا
لیکن سمجھے کون اشارا صاحب کا
چیدہ چیدہ لوگ اسے پڑھ سکتے ہیں
چھپتا ہے محدود شمارہ صاحب کا
میں نے اپنی آنکھیں غور سے دیکھی ہیں
اک ہے میرا ایک کنارہ صاحب کا
اشعار میں جگہ جگہ بے قراری بھی ہے اور اطمینان بھی۔ شکوے بھی ہیں اور محبت بھی۔ لیکن بظاہر جو شکوے ہیں آپ انہیں محبت کا انداز کہہ سکتے ہیں۔ جیسے کوئی بچہ کسی چیز کے بارے میں متجسس ہو اور ہزاروں سوال اس کے دل میں اٹھتے ہیں وہ ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا ہے۔ حسن عباسی بھی دل میں ا±ٹھنے والے ان سوالوں کے جواب کھوجنے کی جستجو میں ہے۔ خدا جو پراسرار ہے زمانے بیت گئے لیکن آج تک کوئی اس کے اسرار ورموز کو نہ پاسکا۔ اس نے اپنی ایک جھلک دکھا کر لوگوں کے دلوں کو بے چین کر رکھا ہے۔ یہی بے چینی کی کیفیت شاعر کے دل میں بھی موجود ہے۔ وجود اور لاوجود کی یہ کشمکش اسے مالک کل کائنات سے ہمکلامی پر مجبور کر رہی ہے۔
سب ہی چوم کے رکھ دیتے ہیں
آپ نے کیا لکھا ہے صاحب
شاعرنے جگہ جگہ اپنے دل کے راز بھی آشکار کئے ہیں اپنی خوبیوں اور خامیوں پر بھی نگاہ کی ہے۔ صرف خدا سے شکوے ہی نہیں اپنی کمزوریاں بھی بیان کیا ہیں۔
یہ یاس د±نیا نے دی ہے صاحب
نصیب اچھا نہیں ہے صاحب
سبب خرابی کا صرف میں ہی ہوں
جہان تو بہترین ہے صاحب
کہیں کہیں وہ صاحب سے کچھ رنجیدہ بھی لگتے ہیں انسان نے روز اول سے دکھوں کی بھاری گٹھڑی سرپر ا±ٹھا رکھی ہے۔ اسی بوجھ تلے وہ ہنستا مسکراتا زندگی کے دن تو گزارتا ہے لیکن یہ دکھ اس کے دل کو دیمک کی طرح چاٹ بھی جاتے ہیں۔ اس رنجیدگی، اس دکھ کی طرف وہ اپنے صاحب کو متوجہ کرتا ہے۔ وہ صاحب کو اپنے وہ آنسو دکھانا چاہتا ہے جسے صرف وہ ہی دیکھ سکتا ہے۔اور جن کا مداوا بھی صرف وہی کرسکتا ہے۔
نجانے کیا ہے ملا ل صاحب
ازل سے آنکھیں ہیں لال صاحب
یہ آنسو یونہی نہیں نکلتے
بہت ہے اندر ا±بال صاحب
ایسے اشعار کی بھی کثرت ہے جہاں حسن عباسی شعور سے لاشعور کی جانب سفر کرتا نظر آتا ہے۔ مذہبی رنگ میں رچے ہوئے اس درویش کی لمحوں کی کیفیت صدیوں پر محیط ہوتی نظر آتی ہے اوریہ کیفیت مسلسل اشعار میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔اپنے د±کھ، زمانے کے غم، ”صاحب“ سے گلے شکوے ہیں لیکن احترام کا دامن کہیں چھوٹتا ہوا نظر نہیں آتا۔ شکووں میں بھی عقیدت اور محبت ہلکورے لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قاری فرط حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ شاعر نے ذاتی واردات بیان ہی کہاں کی ہے وہ تو انسان کے دکھ بیان کر رہا ہے اور انسان زمین کے کسی بھی خطہ میں بستا ہو اس کے دکھ سکھ ایک جیسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ آپ جب یہ حمدیہ مجموعہ پڑھیں گے تو اس کی تھاپ آپ اپنے دل پرمحسوس کریں گے۔ یقیناحمدیہ مجموعوں کی تاریخ میں یہ ایک قابل ذکر حمدیہ مجموعہ ہے۔
کیسے دیکھوں جاکر بنگلہ صاحب
چاروں جانب ہے جنگلہ صاحب
پانی پر تو زور نہیں چلتا اپنا
بھاشا صاحب کا ہے۔ منگلا صاحب کا