معجزہ خود ہمارے ہاتھ میں ہے
بیس تیس سال پیشتر انتخابات اس قدر مشکل اور معرکہ خیز نہیں ہوتے تھے جتنے آج ہیں۔ بعض اوقات تو امیدواران انتخابی مہم میں بنفسِ نفیس شامل ہونا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔قومی سطح پر دو انتہائی مقبول جماعتوں کے امیدواران کے نمائندے ، ملازمین یا منشی ٹائپ لوگ ان صاحبان کے لیے انتخابی مہم چلاتے، پیغامات پہنچاتے اور ووٹ مانگتے نظر آتے تھے۔ منتخب لوگ انتخاب کے بعد بھی شربتِ دیدار تقسیم کرنے میں روایتی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے تھے۔ انکے ڈیرے البتہ سائلوں اور خوشامدیوں کی آماجگاہ بنے رہتے تھے ،لیکن شرفِ باریابی پھر بھی” مخصوصوں“ کو حاصل ہوتا تھا۔ اسی روش پر چلتے جیتتے، ہارتے سیاستدان کاروبارِ سیاست کو گرم رکھنے میں منہمک و مشغول تھے۔پھر یوں ہوا کہ قومی سطح ُپر دو پارٹیوں کی اجارہ داری رفتہ رفتہ ختم ہوئی ، ذرائع ابلاغ نے جدت اختیار کی، عوامی سطح پر شعور و آگہی کا چلن عام ہوا اور روایتی سیاستدانوں کو اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرتے ہی بنی۔ حالات کے بدلاﺅ نے انہیں گلی ، گلی ، در ، در ووٹ کی بھیک مانگنے پر مجبور توکر دیا لیکن یہ انتخابات کے بعد سلیمانی ٹوپی پہن کر ”غائب“ ہونے کا کرتب دکھانے میں پھر بھی مشّاق رہے، عوام ہر دور میں ان کرتبوںسے محظوظ ہوتے چلے آئے۔ احساسِ محرومی و پسماندگی نے جڑیں مضبوط کیں تو سالہا سال سے اقتدار کا حصہ رہنے والے خاندانوں سے مایوس ہو کر عوام نے جذباتی تقریریں کرنے والے ، بظاہر عوامی رنگ ڈھنگ کے حامل خاندانوں کو اپنا نجات دہندہ جانا ، اِنہیں پلکوں پر بٹھایا اور ایک تھالی سے نکل کر دوسری تھالی میں جا گرے۔ بدلاﺅ کی خوش فہمی میں مبتلا رہنے والے، ان خاندانوں کو بھی روایتی رنگوں میں ڈھلتا دیکھ کر خوفزدہ ہو کر اردگرد دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ایک کے بعد دوسرے کے طرزِ عمل سے دھوکہ کھاتے لوگ فٹ بال بن کر لڑھکتے اِدھر تو کبھی لڑھکتے اُدھر کے کھیل کا حصہ بنے رہے۔ بیچ بیچ میں کچھ نوواردگان بھی آئے لیکن دھاک نہ جما سکے۔خطے کے دیگر ممالک کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتے احساسِ محرومی نے ”نئے محبوب“ کی متلاشی آنکھوں کو بے چین رکھا، روز افزوں شعوری کیفیات اور میڈیا کی ترقی نے کام دکھایا اور لوگ روایتی جماعتوں کے درمیان ”تبدیلی “ کا نعرہ لگانے والوں سے توقعات وابستہ کر کے تبدیلی کی امید لگا کر بیٹھ گئے۔ 2013سے وابستہ کی گئیں بھاری بھرکم توقعات وہاں بھی پوری طرح پوری نہ ہو سکیں جہاں انہیں بلا شرکتِ غیرے حقِ حکمرانی تفویض کیا گیا تھا۔ اب پھر انتخابات کا دور دورہ ہے ہر طرف سے ٹھکرائے عوام بے یقینی بے چینی اور بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مختلف جھنڈوں تلے انہی لوگوں کو دیکھ رہے ہیں جنہیں دیکھنا نہیں چاہتے کہ ناچار ہیں اور کوئی چوائس ہی نہیں۔آزمائے ہوﺅں کو آزمانے سے ڈرتے ہیں لیکن کوئی آپشن ہی نظر نہیں آتا۔ معجزے کے منتظر ہیں کہ کوئی معجزہ رونما ہو اور توقعات برآئیں ،حالات بدل جائیں اور کچھ نہیں تو روایتی لوگوں کے روّیوں میں ہی کوئی کرشماتی تبدیلی دیکھنے کو مل جائے لیکن افسوس ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔
ایک بار پھر وعدے وعیدوں کا جکھڑ چلنے کے اسباب ہیں، ایک بار پھر نادیدہ شکلیں نظر آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایک بار پھر لوگوں کی آنکھوں میں خوش نما خواب ہیں لیکن ایک بار پھر حقیقی زندگی کے دامن میں صرف محرومی کے عذاب ہیں۔جوڑ توڑ جاری ہیں انتخابات کے رونما ہونے تک کتنے ہی حریف حلیف اور کتنے ہی حلیف حریف بننے جا رہے ہیں۔ لیکن خدا جانے مطمعِ نظر کیا ہو ، مقاصد کیا ہوں کاش اس بار ان کے مقاصد کی اولین ترجیح ملک کی پسماندگی کا خاتمہ ، نوجوانوں میں امید کی آبیاری اور سیاست پر عوام کے اعتماد کی بحالی قرار پا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کاش ووٹرز کو ہی ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا ادراک ہو جائے وہ ہی اپنے ذاتی ، گروہی،علاقائی، اور لسانی تفرقات سے نکل کر اجتماعی مفادات کے لیے کسی بہتر اور موزوں شخص کا انتخاب کر سکیں ۔اگر سابقین کو ہی چننا امرِ محال ہو تو انہی سے کسی طرح کچھ ایسے اقدامات کی یقین دہانی کروا لیں کہ وہ اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو جائیں اور ملکی ترقی کو اپنی ذاتی ترقی سے مشروط جان لیں ۔ ورنہ معجزے کی امید بقول سید مبارک شاہ بے سود ہے۔
سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوںاور عہدوں کی بندر بانٹ پر لڑائیاں اس بات کی غماز ہیں کہ یہاں نظریاتی سیاست سِرے سے ہی نا پید ہو چکی ہے۔ ذاتی رونمائی اجارہ داری اور خود غرضی کی دلدل میں دھنسی سیاست چڑھتے سورج کو پوجنے کے دین پرسختی سے کاربند ہے۔ نظریہ ئِ ضرورت ہر نظریہ پر بھاری رہاہے اور رہتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے جب تک ہم خود فکر مندہو کر گہری دلچسپی ظاہر نہیں کریں گے نہ تو سیاسی جماعتوں کو عام آدمی کے مسائل کی پرواہ ہو گی اورنہ ان کے کارندوں کو ایسی کو ئی توفیق حاصل ہو سکے گی۔
تھرڈ ورلڈ کے ترقی پذیر اور محکوم ممالک تو ویسے بھی ترقی کے دھارے سے کٹے رہتے ہیں لیکن جن ممالک کے کرتا دھرتاﺅں کو خود پسندی اورہٹ دھرمی کی لت لگ جائے وہ ترقی کا منہ تک دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔ جن ممالک میں لوگ کام کو بنیاد بنا کر ووٹ دینے کے عادی ہو جائیں وہاں زیادہ سے زیادہ عوامی خدمت کی دوڑ لگ جاتی ہے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست دانوں کو عوامی توقعات پر پورا اترنا ہی پڑتا ہے اور جو اس معیار پر پورا اترنے سے قاصر ہو جائیں وہ اس دوڑ سے نکال باہر کیے جاتے ہیں۔ شخصیتوں سے زیادہ ان کے نظریات و خدمات قابلِ احترام سمجھی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کے احترام اور اقتدار کے خواہشمند عوامی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عوام کی خدمت کو اپنا وطیرہ بنا کر نمایاں نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہمارے یہاں شاید غفلت ،بد عنوانی اور اقربا پروری کے مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نظر آنے کی دوڑ لگی ہے۔ آپ اور میں سیاست دانوں کی سیاست کا رخ متعین کرنے اور ان کے رویوں میں سدھار یا بگاڑ لانے پر قادر ہیں لیکن نہ تو ہمیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہے اور نہ ووٹ کی پرچی کی طاقت کاادراک۔ ہر گزشتہ دن ترقی کو ہم سے مہینوں دور لیے جا رہا ہے ایسا نہ ہو کہ دیگر اقوام کے مقابلے میں ہم پیچھے کی طرف لڑھکتے لڑھکتے پتھر کے زمانوں میں پہنچ جائیں ۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں حیرت و حسرت سے ترقی یافتہ اورمہذب ممالک کو دیکھ کر احساسِ محرومی میں مبتلا رہنا ہے یا اپنے شہروں اور علاقوں کو بھی ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بنانا ہے۔ترقی کو چند بڑے شہروں اور اعداد و شمار تک محدود رکھنا ہے یا اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلانا ہے۔ہمیں تھانہ کچہری کی سیاست میں الجھے رہنا ہے یا سیاست میں شائستگی اخلاص اور خدمت کے چلن کو عام کرنا ہے۔ یہاں سے نقل مکانی کرنی ہے یا اس ملک کورہنے اور دیکھنے کے قابل بنانا ہے معجزہ خود ہمارے ہاتھ میں ہے ۔