مشیر
کوئی دور ایسا نہیں گذرا جو حکمرانوں کے مشیروں کے بغیر ہو۔ وہ چاہے قدیم یونان ہو، مصر یا پھر سلطنت روما ہو یا اموی و عباسی سلطنتیں۔ ہندوستان میں سلاطین آئے، مغلوں اور سکھوں نے حکومت کی اور بڑے بڑے نامور مشیر بھی پیدا ہوئے جن کا تذکرہ بادشاہوں سے کم نہیں ہوتا۔ برامکہ خاندان اور اکبر کے نورتنوں نے تو تاریخ میں بڑا نام نام کمایا۔ انگریز ہندوستان میں حکمران بنے تو انہوں نے مشیر کی بجائے"مخبر"پیدا کئے جو انہیں اپنی ہی قوم کو زیر کرنے کے گر بتاتے۔ایک روز انگریز نے ساز و سامان باندھا اور ہندوستان سے رخصت ہوگئے۔ہم آزاد تو ہوگئے مگر کوئی سیاسی نظام نہ بنا سکے۔ عوام کے براہ راست ووٹوں کے بغیر اورڈکٹیٹروں کے بنائے ہوئے آئین برس ہا برس تک ہم پر مسلط رہے ۔1973ءمیں ایک متفقہ آئین تب بنا جب مشرقی و مغربی پاکستان میں مشرقی بازو ہم سے الگ ہوگیا۔ براہ راست منتخب نمائندوں نے بالآخر ایک متفقہ آئین بناہی لیا اور کام چل پڑا۔ یہ بحث پھر کسی وقت دوبارہ کر لیں گے کہ اس کے فوری بعد آنے والی بھٹو حکومت نے آئین کو کس طرح مخالف جماعتوں کو رسواءکرنے کیلئے استعمال کیا۔ بات ہو رہی تھی سرکار کے مشیروں کی جو آئینی طور پر صدر اور وزیراعظم کیلئے مقرر ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی مشیرکی بجائے مخبر باعزت ٹھہرے۔ لیکن اس سے ذرا 1962ءکے آئین کی بات خالی ازدلچسپی نہ ہوگی جب صدر ایوب خاں نے اپنے بنائے ہوئے آئین کے تحت کچھ مشیر مقرر کئے کچھ تو باقائدہ اور تسلیم شدہ تھے اور کچھ اس بات کا چرچاکرتے پھرتے تھے کہ وہ صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خاں کے مشیر ہیں۔ انہی میں ایک معروف شاعر حفیظ جالندھری بھی تھے یہ دلچسپ واقع حبیب جالب سنایا کرتے تھے کہ ایک بار پرانی انار کلی میں طلباءکے ہر دلعزیز عبدالرحمان ہوٹل کے قریب حفیظ جالندھری انہیں مل گئے۔ علیک سلیک ہوئی۔بقول جالب حفیظ جالندھری ایسے گفتگو کرتے جیسے قرض دے رہے ہوں ۔وہیں کھڑے کھڑے جالب سے حفیظ جالندھری نے کہا کہ جالب یار آج کل بہت مصروف ہوں وہ جو اوپر ہے نا اس کا مشیر بن گیاہوں۔جالب نے کہا کیا خداکے مشیر بن گئے ہو تو حفیظ جالندھری صاحب نے جوابا کہا کہ اوئے نہیں ایوب خاں کا مشیر بن گیا ہوں ۔وہ رات کوتین بجے بھی مجھے مشورے کیلئے بلا لیتا ہے۔اب بتا میں کیا کروں۔میںنے ایوب خاں سے کہا ہے کہ پاکستانی ڈنڈے سے ڈرتے ہیں ،ان پہ ڈانڈا رکھ۔اس پر حبیب جالب نے اپنی شہرہ آفاق نظم"مشیر"لکھ ڈالی۔آپ بھی ملاحظہ کریں ۔
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کڑور ہیں۔
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سوگئی۔
ہر امید کی کرن ۔
ظلمتوں میں کھوگئی
یہ خبر درست ہے۔
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں۔
زندگی کاروگ ہیں
اور تیرے پاس ہے۔
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کانور ہے۔
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے۔
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو پیام صبح نو۔
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں۔
سب یہ شر پسند ہیں