ووٹ کو صرف عزت ہی نہیں چاہئے
”ووٹ کو عزت دو“ کا ایک جز یہ بھی ہے کہ ووٹر کو امیدوار کے کوائف کا بھی علم ہو کہ یہ شخصی اور عملی اعتبار سے کیسا ہے اسکے ذرائع آمدنی کیا ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلی بار کاغذات نامزدگی میں ظاہر کئے گئے اثاثوں اور حلف ناموں کی تفصیلات اپنی سرکاری ویب سائٹ پر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔25جولائی سے پہلے امیدواروں کی معلومات عام ہوں گی۔ سیاستدانوں نے دباﺅ ڈالا کہ تفصیلات شائع نہ کی جائیں کیونکہ یہ نجی زندگی میں مداخلت ہے۔ دباﺅ میں کمیشن نے 2013ءکا الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا ڈیٹا ویب سائٹ سے ہٹا دیا تھا۔ ایف بی آر بھی تو سالانہ ٹیکس ڈائریکٹری کے ذریعے منتخب نمائندوں کی معلومات عام کر رہا ہے اسی طرح گواہی بھی معلومات کے بغیر نہیں دی جا سکتی۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم نے صرف 1100 افراد کے 135ارب کے اثاثے ظاہر کئے ہیں۔ فی الحال تو خزانے میں چار ارب آئے ہیں۔ کسی کی بھی آمدن کیا اور اثاثے کتنے کے حوالے سے پورا سچ کبھی سامنے نہیں آ سکتا۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 122امیدوار دہری شہریت رکھتے ہیں اور 2178 مختلف اداروں کے مالی ڈیفالٹر ہیں۔2715 امیدواروں پر کرپشن، منی لانڈرنگ،ریپ و دیگر الزامات ہیں۔ نگران سیٹ اپ کوئی بنیادی تبدیلی لانے سے قاصر ہے۔ ہر سطح پر نوکرشاہی کا بلڈ گروپ نہیں بدلا جا سکتا۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی بدلنے سے تھانیداروں کی ذہنیت نہیں بدل جاتی۔ نگران سیٹ اپ چند درجن خوش نصیبوں کی لاٹری نکال کر ان کی کاروں پر جھنڈے لہرا دیتا ہے۔1993ءمیں نگران وزیراعظم معین قریشی امپورٹ کئے گئے تھے۔ ساڑھے تین لاکھ فوجی ہی دھاندلی کا راستہ روک سکتے ہیں نگران وزیراعظم کے اثاثوں کی تفصیل بھی حیران کن ہے۔ کاغذوں پر نوٹو کرپشن لکھنے سے کرپشن ختم نہیں ہوتی اسی طرح نوٹوں پر رزق حلال عین عبادت ہے لکھنے سے ناجائز آمدنی کا راستہ نہیں رکتا، سگریٹ کی ڈبیہ پر نہ ہی کینسر کا ڈر ڈالنے سے سگریٹ نوشی رکتی ہے۔” انسان خسارے میں ہے“ یہ بات لاریب ہے لیکن گنتی کے ”بڑے“ لوگوں کو چھوڑ کر پاکستان کا ہر شہری خسارے میں ہے، شہری ہی نہیں ساری حکومت خسارے میں ہے بجٹ خسارے میں ہے، ادارے خسارے میں ہیں، زندگی کی بنیادی ضرورتیں جہاں جہاں پوری نہیں ہو رہیں وہاں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ دن بھر چلچلاتی دھوپ میں رزق تلاش کرنا اور پنکھے کی ہوا سے بھی دور رہنا خسارہ ہی تو ہے۔ ڈالر کا تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچنا پوری قوم کیلئے خسارہ ہے۔ اسکے نتیجے میں پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کا فی لٹر 6.55روپے تک مہنگا ہونا زندگی کو خسارہ میں ڈال گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 124.50 روپے ہو گئی۔ روپے کی قدر میں کمی سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ غیر موثر ہو گیا۔ گویا تنخواہ داروں اور پنشنروں کو خسارے نے آ لیا۔ زر مبادلہ کے ذخائر محض 10ارب ڈالر رہ گئے۔ ایٹمی قوت کو اسکے عمال نے کہاں پہنچا دیا خدا بھلا کرے اور کرتا رہے چیف جسٹس ثاقب نثار کا جنہوں نے موبائل کارڈ پر استحصال کےخلاف حکم جاری کیا، موبائل کارڈ ہر ٹیکس کی کٹوتی معطل کی ۔ ریڑھی بان ٹیکس نیٹ میں کیسے آ گیا غریب سے ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے۔ ریلوے سٹیشنوں اور لاری اڈوں کے باہر غنڈوں اور لیٹروں کا پرچی سسٹم بھی جگا ٹیکس نہیں تو اور کیا ہے؟ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ میں فرق واضح نہ کرنا امتیازی سلوک ہے اسے کون اور کیسے اسلامی مساوات کہہ سکتا ہے ۔فالتو بجلی پیدا کرنے کا راگ الاپنے والوں کو شرم سے سر جھکا اور منہ چھپا لینے چاہئیں۔ حکومت وقت نے ملک بھر میں 11گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کا اعتراف کر لیا ہے۔25 جولائی کے انتخابات کے نتیجے میں فرشتے تو برسراقتدار نہیں آئینگے۔ منتخب ایوانوں میں چند چہرے بدل جائینگے لیکن سرکار کے لوگ کلرک بادشاہ اور بیورو کریسی کوجوں کی توں رہے گی، اصل حکومت یہی لوگ ہوتے ہیں، تھانیدار اپنی حدود میں وزیراعلیٰ سے کم نہیں ہوتا۔ ایک ٹریفک وارڈن ہی کم نہیں، اپنی آئی ہے آئے تو آپ کو روک کر بحث وتکرار میں آپ کا قیمتی وقت ضائع کر سکتا ہے۔ خواہ آپ اپنی بیوی کی ڈیلوری کیلئے جا رہے ہوں یا نماز جنازہ میں آپ کی شرکت ضروری ہو۔
چودھری نثار نے زندگی کی کم و بیش آدھی بہاریں (34سال) ن لیگ کے آنگن میں گزار دیں اسکے بعد ان کے دل کو جو ملال ہوا وہ رکنے نہیں پاتا۔ یاری ٹوٹ جائے تو بہت سے باتیں زبان پر نہیں لائی جاتیں سارے یارانے ریحام خان جیسے زبان درازی اور بے حیائی پر مبنی نہیں ہوتے۔ بھارتی ٹی وی چینل پر جو عورت پاکستانی سماج اور ایک سیاسی کردار اور جماعت کو یہ کہہ کر ننگا کر دے کہ عہدے مبنی تعلقات کے بل پر ملتے ہیں اسے کون حب الوطنی اور پاکستان دوستی کئے گا جس کسی کے ساتھ کوئی ہم نوالہ ہو جائے تو آنکھیں شرماتی ہیں کچھ کہئے سننے سے کڑاتی ہیں اور پھر جس نے جلہ¿ عروسی میں وقت گزارا ہو اسے نسوانیت کا پردہ چاک کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے۔ ریحام خان کی کتاب کا شور ایک گردو غبار کا طوفان تھا جو آیا اور چلا گیا ذہنوں پر جو گرد مٹی پڑی وہ ڈسٹنگ کے بعد صاف کر لی گئی عمران خان شان سے مدینہ المنورہ کے مطار پر اترے اور سعودیوں نے ان کا خیرمقدم کیا یہ شاید ان کےلئے پری پول نہیں بلکہ پری وزیراعظم پروٹوکول تھا۔ چودھری نثار کا یہ کہنا کم اہم نہیں کہ تحریک انصاف میں 10 تو مسلم لیگ ن میں 100 خامیاں ہیں زبان کھولی تو شریف منہ نہیں دکھا سکیں گے گویا شریفوں کی شرافت پر بھی کوئی سوالیہ نشان اٹھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے حمزہ شہباز اور عائشہ احد کا معاملہ بھی طے کرا دیا 2010ءسے لٹکنے والا اندرونی معاملہ 2018ءمیں ”بابا رحمتے“ رفع دفع کرا دیا شریف کی شرافت پردے ہی میں رہنی چاہئے کسی ریحام خان یا عائشہ احد کے منہ پر ٹیپ نہیں لگائی جا سکتی۔ زبان اور گولی کو چلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ نواز شریف کی اس سے بڑی شرافت کیا ہو گی کہ انہوں نے ایک سو سے زائد پیشیاں بھگتی ہیں کیا آج تک کسی نے ایک سو سے زائد پیشیاں بھگتی ہیں؟ (جاری)
کوئی ایک خسارہ ہو تو بتایا جائے ڈالر نے پٹرول ڈیزل ہی مہنگا نہیں کیا ملکی قرضوں میں 400 ارب روپے کا اضافہ بھی کیا ہے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ 15 ہزار سے زائد کاغذات نامزدگی اسکروٹنی کے لئے نیب ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کو ارسال ہوئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس خصوصی اسکروٹنی سیل موجود ہے شدید گرمی کے ساتھ بدترین لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت 2008ءسے آج تک جاری ہے دو منتخب حکومتیں اور نگران حکومتیں بھی بے بس ثابت ہوئیں بجلی شارٹ فال 4560 میگاواٹ ہے کہاں گئی ن لیگ حکومت کی سسٹم میں ڈالی گئی 10 ہزار میگاواٹ بجلی؟ نگرانوں کا کہنا ہے لوڈشیڈنگ بجلی چوری، طلب بڑھنے کے باعث ہو رہی ہے فنی خرابی پانی کی قلت ٹرانسمیشن خرابی اور نقصانات بھی لوڈشیڈنگ کی وجوہات ہیں پیداوار 21 سے 22 ہزار، صلاحیت 28 ہزار میگا واٹ ہے بجلی کی طلب 23 سے 24 ہزار میگاواٹ ہے نگران وزیر خزانہ کے نزدیک تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کی وجہ سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں لیکن اس اضافے کا 50 فیصد بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ حکومت سے پوچھے پٹرول میں ٹیکس کتنے ہیں؟ یہ اعلان تو اطمینان بخش ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے نہ پاکستان کی سلامتی پر سمجھوتہ کریں گے۔ شہباز شریف نے تحریک انصاف سے 26 سوالات کئے ہیں ۔ پی ٹی آئی بھی اتنے ہی سوالات ن لیگ سے کرنے کا حق رکھتی ہے۔ 350 ڈیمز 250 کالج، ایک ہزار سٹیڈیمز بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں اورنج لائن کو پانچ سال ہونے کو ہیں لیکن ابھی مسافروں کے قابل نہیں ہو سکی۔ نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اسی لئے انہیں کہنا پڑا کہ چیف جسٹس میرا کیس منگوا کر پھانسی دے دیں یا جیل بھیج دیں۔ آئین توڑنے والے کو ویلکم نہیں کیا ان کی بہادری کو للکارا ہے جیل اور قانون سے کمانڈو نہیں ڈرتے! عام پاکستانی کے لئے یہ خبر اطمینان بخش ہے کہ قرضے معاف نہیں واپس کرنا ہو گا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضے معاف کرانے والے 222 افراد اور کمپنیوں سے ایک ہفتے میں جواب طلب کیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے نزدیک قوم کے 54 ارب روپے ڈکار گئے ، لٹ ڈالی گئی، کیوں نہ جائیدادیں ضبط کر کے معاملہ نیب کو بھجوا دیں کیوں نہ معاف قرضے کالعدم قرار دے دیں نیپرا کے نزدیک ترسیل کا نظام بہتر نہ ہوا تو لوڈشیڈنگ مزید بڑھے گی ۔ صرف لاہور میں ایک سال میں 7 ارب کی بجلی چوری رپورٹ ہوئی ہے ایف آئی اے اور لیسکو اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت کے باعث 6 ماہ میں گیس و بجلی چوری کے صرف 4 مقدمات درج ہوئے بجلی چوری کے 95 فیصد کیسز میں لیسکو اہلکاروں کو پرچے میں نامزد ہی نہیں کیا جاتا صارف بھی جرمانے کے بعد آزاد ہو جاتے ہیں۔ سزائیں سخت نہ ہونے کیوجہ سے بجلی چور بچ جاتے ہیں۔ عمران خان نے وزیر اعظم ناصر الملک سے کہا ہے کہ وہ بجلی بحران کے ذمہ داروں کو قوم کے سامنے لائیں کیا پانچ سال میگاواٹ کے فیٹے کٹتے رہے؟ کیا ن مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اصل حقائق سامنے لے آئیں گے۔ 1004 ارب روپے کے گردشی قرضے کے بارے میں قوم کو آگاہ کریں ٹی وی چینل رات دن شہری مسائل اجاگر کرتے ہیں کراچی میں پانی کے ٹینکر بلیک میں فروخت ہوتے ہیں کیا کراچی کے شہریوں کی دہلیز پر پانی کی فراہمی ناممکن ہے۔ وزیراعلیٰ کی کیا بے بسی ہے کہ وہ کچرا نہیں اٹھوا سکتے یا شہریوں کو پانی کی فراہمی یقینی نہیں بنا سکتے۔ ایسی بے بسی یا بے حسی آخر کیوں کر ہے؟ روپے کی ناقدری دراصل ہماری ناقدری ہے مقروضوں اور خسارے میں ڈوبے لوگوں اور ملکوں کو کون گلے لگاتا ہے؟ کہاں گئیں وہ یقین دہانیاں کہ روپے کی قیمت میں اب مزید کمی نہیں ہو گی ساڑھے تین سے چار ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی اقساط کے ادا ہوں گی؟
عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ منفی قرار دے دی ہے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 2 ماہ کے لئے رہ گئے ہیں، اکتوبر 2016ءسے اب تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 40 فیصد کمی ہو چکی ہے 20 کلو آٹے کا تھیلا 20 روپے مہنگا کر دیا ہے روپے کی قدر زوال پذیر ہے چین یا آئی ایم ایف کے درِ دولت پر حاضری ناگزیر دکھائی دیتی ہے۔ غریب عوام یہ ضرور جان گئے ہیں کہ ان کے ووٹوں کے محتاج کتنی مال و دولت کے مالک ہیں۔ ان کی زکواة خیرات سے بھی بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے۔ آصف زرداری نے پاکستانی عوام کو سب سے بڑی لالی پاپ دی ہے کہ برسراقتدار آ کر ہر خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دیں گے اس وقت ووٹ کو عزت نہیں پانی اور بجلی کی ضرورت ہے۔ زرداری، بلاول ، عمران اور مریم کی دولت ووٹ کے کام نہیں آ سکتی اس میں اضافہ تو ہو سکتا کمی ممکن نہیں!