نظریہ پاکستان ‘ مجید نظامی ‘ سردار عبدالقیوم
آبروئے صحافت مجید نظامی رمضان کے آخری عشرے قیام پاکستان کے مبارک دن 4سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم نے 2 قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان ہمیں لے کر دیا۔ مجید نظامی مرحوم نے کبھی اسکی ناشکری نہیں کی۔ نہ حکمرانوں کے لالچ اور دھمکی کی پرواہ کی۔2 قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے پاکستان کیلئے ہر محاذ پر پہرہ دیا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے بعد ایسی شخصیت تھے جن پر قوم فخر کر سکتی ہے کیونکہ پاکستان ایک نظریہ کی پیداوار ہے۔ دو قومی نظریہ اسکے تصور کا اہم ترین حصہ ہے۔ جس کا پہلا حصہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست بنانا تھا۔ دوسرا مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ پورے پاکستان کو اس بات پر فخر ہے کہ قرار داد پاکستان کے ساتھ ہی قائد اعظم کی خواہش پر حمید نظامی مرحوم نے نوائے وقت کا اجراءکیا۔ آپ کی زندگی کے بعد مجید نظامی نے ہر موقع پر نظریہ پاکستان کو فروغ دینے کیلئے وقت کے حکمرانوں ، آمروں اور لادینی قوتوں کو للکارا۔ ہر وقت ہر شعبے میں وہ کامیاب رہے۔
آج جیسا پاکستان نظر آ رہا ہے ایسا قائد اعظم کبھی نہیں چاہتے تھے۔ 1971ءکو جب پاکستان دولخت ہو گیا۔ اس میں بھی ہمارے حکمرانوں اور آمروں کا کردار تھا۔ جمہوری دور میں بھی کبھی جمہوریت پھل پھول نہ سکی۔ سیاسی حکمران بھی آمروں کے طرز عمل پر چلتے رہے۔ ہمارے حکمران اور سیاسی رہنماءاپنے نظریہ ضرورت کے تحت مجید نظامی سے ملتے اور مشورہ لیتے۔ لیکن عمل درآمد کبھی نہ ہو سکا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں نوائے وقت سمیت ادارات کے ذریعے نظریہ پاکستان ، اسلام اور کشمیر کا کے سے الحاق کو فروغ دیا۔ بھارت کےخلاف ڈٹ جانیوالے اور آمروں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کو نظریہ پاکستان کی آبیاری کےلئے وقف کیا۔ اپنے قلم اور آواز کے ذریعے پیغام دیا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا قیام ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جس کو نظریاتی ساتھی کبھی بھلا نہیں سکتے۔ حالانکہ یہ کام ریاست کے کرنے کا ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اب بھی نظریاتی لام بندی کر رہا ہے۔ مجید نظامی اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر یقین رکھنے والے سچے عاشق رسول ﷺ تھے۔ تحریک ختم نبوت تکمیل پاکستان ، تحریک نظام مصطفی بنگلہ دیش نہ منظور ، تحریک بحالی جمہوریت ، دفاع نظریہ پاکستان ، مسئلہ کشمیر ہر موقع پر ان کا کردار مثالی اور نمایاں رہا۔ تحریک آزادی کشمیر پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ بھارت کو اپنا اصلی دشمنی ثابت کیا۔ آل پارٹی حریت کانفرنس اور ساری کشمیری قیادت آپ پر اعتبار کرتی اور مشورہ لیتی تھی۔ اپنے آخری خطاب میں برملا کہا کہ پاکستان بھارت سے جنگ کرے۔ جو ڈیم اس نے ہمارے دریاﺅں پر بنائے ہیں ان کو تباہ کرے۔ کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی شدید خواہش رکھتے تھے۔
مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان بھی 2015ءکو رمضان کے آخری عشرے 22 رمضان کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مجید نظامی کی طرح اپنے ہزاروں چاہنے والوں کو سوگوار کر گئے۔ زندگی کے آخری لمحات میں اپنے پوتے عثمان علی خان کو پیغام دیا کہ اسلام ، پاکستان ، کشمیر کو کبھی نہ بھولنا۔ نظریاتی لوگ نظریہ پاکستان کے مخالفین لادینی قوتوں کیخلاف ننگی تلوار تھے۔ پوری دنیا میں چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔
سردار عبدالقیوم خان برملا کہتے تھے کہ نوجوانوں کو نظریاتی اور اپنے تاریخی ورثے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھانی چاہیے۔ انہوں نے باطل قوتوں کو کبھی پنپنے نہیں دیا۔ متعدد کتابیں تحریر کیں۔ سیاست ، مذہب ، حکومت اور مسئلہ کشمیر کے متعلق معاملات کو زیر بحث لایا گیا۔ مجید نظامی کی طرح وہ بھارت کو اپنا ازلی دشمن سمجھتے تھے۔ پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے مختلف فورموں پر لیکچردیئے اور تقریر کیں۔ قائد اعظم کے قول شہ رگ پاکستان کی روشنی میں وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کیلئے عمر بھر کوشاں رہے۔ 1971ءمیں جب پاکستان دو لخت ہو گیا تو پوری قوم میں مایوسی پائی جاتی تھی ۔ انہوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں نظریاتی لام بندی کی۔ انکے تربیت یافتہ MSF کے نوجوان آج بھی پاکستان کے پارلیمنٹ ، میڈیا ، مسلح افواج پاکستان اور دیگر اداروں میں اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنماءنظریاتی ساتھی خواجہ سعد رفیق اپنی تقاریر اور نجی محفلوں میں کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ مسلم لیگ کے مشکل دور میں جب حکومت اور اسلامی جمعیت طلبہ ہماری جان کی دشمن تھے ۔ اس وقت مجید نظامی ، سردار عبدالقیوم خان اور غلام حیدر وائیں نے ہمارا قبلہ درست رکھا۔ کڑی دھوپ اور خوفناک طوفان میں سیاسی چھتری کا کام کیا۔ اور ہماری سرپرستی کی۔ سردار سکندر حیات خان انکے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور وہ آج بھی اپنی محفلوں میں مجاہد اول سے اپنا قریبی تعلق اور ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انکے سیاسی جانشینوں میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان ، موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان ، سینئر وزیر طارق فاروق احمد چوہدری ، سپیکر کشمیر اسمبلی شاہ غلام قادر اور سینکڑوں کارکن شامل ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کے صف اول کے سیاستدانوں میں انکا شمار ہوتا تھا۔ وہ مخالفت برائے مخالفت کے قائل نہ تھے۔ پابند سلاسل ہونے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کے مشکل دور میں قومی اتحاد کے رہنماﺅں کو مذاکرات کیلئے ایک میز پر بٹھایا۔ مجید نظامی مرحوم ، سردار عبدالقیوم خان اور دیگر نظریاتی ساتھیوں کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔