مسائل کی جڑ استحصالی ریاستی نظام
ہم وقتی اور عارضی مسائل میں اُلجھ چکے یا اُلجھا دئیے گئے ہیں۔ ستر سال گزرجانے کے بعد بھی ہم اپنے ریاستی نظام پر نظرثانی کرنے پر مائل نہیں ہیں جو استحصالی اور سامراجی ہے۔ پاکستان کے ریاستی نظام سے امیر ترین اشرافیہ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں فائدہ اُٹھا رہے ہیں جبکہ عام آدمی کی زندگی بیمار کی رات بن کررہ گئی ہے۔ بقول غالب:۔
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکر ہے میرے پاﺅں میں زنجیر نہیں
پاکستان کا موجودہ ریاستی نظام اسقدر ظالمانہ اور سنگدلانہ ہوچکا ہے کہ اس نظام میں اسلام کے سنہری اُصولوں اور فلاحی ریاست کے تصور کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی وسائل عوام سے جمع کرکے امیر اشرافیہ پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہزاروں بااثر سیاستدانوں کی سکیورٹی پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ استحصالی ریاستی نظام سیاسی سول اور عسکری بیوروکریسی، جاگیرداروں، تاجروں، عدلیہ کے ججوں اور مذہبی رہنماﺅں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رہتی ہے۔
قانون بھی طاقت ور کی پشت پناہی کرتا ہے جبکہ کمزور انصاف سے محروم رہتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 60فیصد شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ رہائشی پلاٹ اور زرعی زمینیںججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور اراکین پارلیمنٹ میں تقسیم کردی جاتی ہیںجبکہ کروڑوں شہری چھت سے محروم ہیں۔ اگر چھت ہے تو وہ بارش میں ٹپکنے لگتی ہے۔ پاکستان کے امیر افراد ٹیکس نہیں دیتے۔ ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق بیس کروڑ افراد میں سے صرف دس لاکھ افراد ڈائریکٹ ٹیکس دیتے ہیں۔ استحصالی ریاستی نظام کی بناءپر 61فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکس جمع کیا جاتا ہے جس میں عام آدمی بھی شامل ہے جیسے موبائل فون پر مزدور، کسان، ریڑھی بان، مالی اور سویپر سے بھی ٹیکس لیا جاتا ہے جسے ”ریاستی ڈکیتی“ کا نام ہی دیا جائے گا۔ تعلیم، صحت، پانی اور افرادی قوت پر بہت کم بجٹ خرچ کیا جاتا ہے۔ استحصالی نظام کی وجہ سے عام آدمی کو اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کے مساوی مواقع نہیں ملتے۔ پارلیمنٹ میں ایسے قوانین نہیں بنائے جاتے جو عام آدمی کے مفاد کے لیے ضروری ہیں۔ ایک ہی ریاست میں ایک منصب دار بیس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہا ہے جبکہ کروڑوں شہری چودہ ہزار روپے ماہانہ پر گھر چلانے پر مجبور ہیں اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
جن ریاستوں میں استحصالی نظام ہوتا ہے وہاں پر ریاستی ادارے انحطاط پذیر ہوجاتے ہیں اور استحصالی طبقات نشوونما پاتے ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا رہتا ہے۔ غیر منصفانہ معاشی نظام کی وجہ سے مساوی ترقی نہیں ہوتی۔ ملک مقروض اور غریب ہوکر اپنی خود مختاری کھو بیٹھتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 3ہر قسم کے استحصال کے خاتمے اور ارتکاز زر کو روکنے کا اعلان کرتا ہے اس کے باوجود پاکستان میں آئین سے کھلے انحراف کی وجہ سے عملی طور پر استحصالی نظام جاری و ساری ہے۔ وی آئی پی کلچر عروج پر ہے۔ استحصالی نظام تمام مسائل کی جڑ ہے جو سرمایہ داری اور اجارہ داری پرموٹ کررہا ہے۔ مافیاز ملکی وسائل لوٹ کرپاکستان سے باہر لے جارہا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ گریڈ ایک سے گریڈ بائیس کی نوکری کے لیے تعلیمی قابلیت اور انٹرویوز لازم ہیں مگر صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کے لیے تعلیم یافتہ ہونا لازم نہیں ہے حالاں کہ ان کی بنیادی ذمے داری قانون سازی ہے۔ انتخابی اُمیدواروں نے الیکشن کمشن پاکستان میں جو گوشوارے جمع کرائے ہیں ان کے مطابق سیاستدانوں کے اثاثے اربوں روپے کے ہیں جو استحصالی ریاستی نظام کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ منصفانہ فلاحی نظام میں اربوں روپے کے اثاثے اور جائیدادیں ممکن نہیں ہوسکتے۔ نیب اپنے قوانین کے مطابق اربوں روپے کے اثاثوں کے بارے میں سوال کرتا ہے اور ذرائع آمدن یعنی ”منی ٹریل“ کے شواہد مانگتا ہے تو اس پر ”انتقام“ کا الزام لگادیا جاتا ہے۔نیب کا قومی فریضہ ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے قومی دولت لوٹنے والے لٹیروں کا کڑا احتساب کرکے ان کو انتخابی عمل سے باہر کردیں وگرنہ یہی قومی لٹیرے ایک بار پھر منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے اور دوبارہ لوٹ مار شروع کردیں گے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال قومی جذبے کے ساتھ اپنے فرائض ادا کررہے ہیں۔ عوام ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ احتسابی عمل کو طول نہیں دینے دیں گے اور مناسب وقت میں فیصلے عوام کے سامنے لائیں گے۔
استحصالی ظالمانہ نظام کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ لوگ پولیس کو دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے کی بجائے ہراساں ہونے لگتے ہیں۔ برطانوی دانشور فریڈرک ڈونلڈسن نے غیر منصفانہ معاشرے کی سات سماجی برائیوں کی نشاندہی کی ہے۔ نمبر 1 بغیر کام کے دولت، نمبر2ضمیر کے بغیر خوشی، نمبر 3 کردار کے بغیر علم، نمبر 4 اخلاق کے بغیر تجارت، نمبر 5 انسانیت کے بغیر سائنس، نمبر6 قربانی کے بغیر عبادت، نمبر 7 بے اُصول سیاست۔ پاکستانی سماج میں یہ ساتوں سماجی برائیاں موجود ہیں جو استحصالی نظام کی پیداوار ہیں۔ پاکستان میں انتخابی عمل جاری ہے سٹالن نے جمہوریت کے بارے میں بصیرت افروز بات کی تھی ”سیاسی طاقت ووٹ دینے والوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ووٹ گننے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے“۔ استحصالی نظام میں انتخابی نظام ”سٹیٹس کو“ برقرار رکھنے کا ہتھیار ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ اور فوج سب استحصالی نظام سے فائدہ اُٹھاتے ہیں لہذا وہ استحصال، ظلم اور نا انصافی کو ختم نہیں کرسکتے۔ جب کوئی برائی سماج میں جڑ پکڑ لے پھر انتخابات کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ 1965ءسے 2013ءتک عوام گیارہ انتخابات بھگت چکے ملکی حالات بدترین ہوچکے اور عوام کا مقدر تبدیل نہیں ہوسکا کیونکہ انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنے سرمایے میں اضافہ کرتے ہیں ان سے عوام کی نمائندگی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔۔ پاکستان کے مسائل کا حل انتخابات میں نہیں بلکہ انقلاب اور احتساب میں ہے۔
عالمی شہرت یافتہ لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے اصلاحات (Evuluation) ارتقاءکے ذریعے استحصالی ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہوئے اور ناکامی کا اعتراف موت کی کوٹھڑی میں لکھی گئی اپنی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ میں کیا۔ انہوں نے نوجوانوں کو طبقاتی جدوجہد کا پیغام دیا۔ استحصالی ریاستی نظام پاکستان کے تمام سیاسی معاشی اور سماجی مسائل کی جڑ ہے۔ ظالمانہ، سنگدلانہ پختہ نظام کو تبدیل کرنے کا واحد حل عوامی انقلاب ہے۔ کوئی نوجوان لیڈر اُٹھے اور پاکستان کے غریب، محنت کش اور محروم عوام کو منظم اور متحد کرے ان کو نئے سیاسی اور معاشی نظام کا ایجنڈا دے اور عوامی طاقت سے انقلاب لا کرنیو سوشل کنٹریکٹ نافذ کرے۔ استحصال کرنے والے افراد سے غیر قانونی اثاثے چھین کربیت المال میں جمع کرے۔ بیرونی قرضے واپس کرکے ریاست پر فلاحی نظام نافذ کرے جس کے نتیجے میں فلاحی ریاست وجود میں آئے اور ہر شہری کو بلاامتیاز ترقی کرنے کے مساوی مواقع فراہم ہوسکیں۔ پاکستان کے بے مثال چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار استحصالی ریاستی نظام کو بے نقاب کررہے ہیں۔اس کے بعد تو عوام کو یہ یقین کرلینا چاہیئے کہ پاکستان کا استحصالی نظام ہی سب برائیوں اور مسائل کی جڑ ہے۔
کب تک سناﺅ گے تاج محل کی کہانیاں
بچے تو کررہے ہیں تقاضہ مکان کا