ہفتہ‘ 8 شوال 1439 ھ ‘ 23 جون 2018ء
ایک شخص نوٹوں کا تاج، دوسرا جمہوریت کو بادشاہت بنا رہا ہے۔ بلاول
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ محترمہ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے یوم ولادت پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی سنجیدہ مجلس کو سیاسی جلسہ بنا دیا جس میں فقط مرحومہ کی عوام، اور جمہوریت کے لئے خدمات کا ذکر ہونا چاہئے تھا۔ وہ جوش خطابت میں ”تیسرے“ کا ذکر بھول گئے یا قصداً پہلوتہی کر گئے، ورنہ پورا فقرہ یوں ہوتا، ایک شخص لوٹوں کا تاج دوسرا جمہوریت کو بادشاہت اور ”تیسرا نوٹوں کے انبار“ لگا رہا ہے۔ اگر اقتدار ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری نسل کو منتقل ہوتا جا رہا ہو تو واقعی یہ بادشاہت ہی ہوتی ہے۔ اس حقیقت پر مزید حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں۔ اس تقریب سے چیئرمین صاحب کے والد محترم جناب آصف علی زرداری نے بھی خطاب کیا۔ اُن کا مشرف سے پوچھنا کہ اربوں کہاں سے آ گئے تعجب کا اظہار نہیں ، بلکہ تجاہل عارفانہ ہے۔ ممکن ہے کہ ا س کا جواب سابق صدر کو سابق صدر یہ دے کہ جناب اس ”غریب“ پر بھی ”فضلِ ربی اُسی راہ سے ہوا ہے جس راہ سے آپ پر ہوا۔ عام انتخابات کے اُمیدواروں نے جو الیکشن گوشوارے داخل کرائے ہیں اُنہوں نے بڑے بڑوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جنہیں عوام صدقات و زکوٰة کا مستحق سمجھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ کروڑ پتی کی حد بھی پار چکے ہیں، صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ بعض تو دو دو اور تین تین پتنیوں کے پتی بھی نکلے۔ جوں جوں گوشواروں کی تفصیلات آرہی ہیں‘ توں توں ایسے ایسے بھید کھل رہے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ پولنگ والے دن ووٹ ڈالنے کی بجائے مالک الملک کے حضور سجدہ ریز ہو کر خشوع خضوع سے دعا کی جائے ‘ یااللہ! اس قوم پر رحم فرما‘ جس نے اس ملک میں تیرے دین کو نافذ کرنے کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ اور ہزاروں بہنوں ‘ بیٹیوں کی عصمتوں کا ہدیہ پیش کیا۔
٭........٭........٭
لاہور میں سپیڈو بسیں خالی دوڑ رہی ہیں۔ ایک شہری
ارے بھئی! یہ بسیں جنہیں لال بسیں بھی کہا جاتا ہے مسافروں کے لئے تھوڑا چلائی گئی ہیں انہیں اسی طرح خالی دوڑتے دیکھو اور خوش رہو! جب یہ ائرکنڈیشنڈ بسیں چلیں، تو ارباب بست و کشاد کو ڈر ہوا کہ ان کا حشر بھی ماضی کی ڈبل ڈیکروں، والوو بسوں اور اومنی بسوں جیسا نہ ہو کہ جنہیں ان کا عملہ ہی کھا گیا۔ پرزے فروخت کر دئیے گئے تیل فروخت کر دیا جاتا رہا۔ جن لوگوں نے نیلام میں ان بسوں کے ڈھانچے خریدے ، اُنہوں نے چند ہی برسوں میں ٹرانسپورٹ کمپنیاں بنا لیں اور ٹرانسپورٹر بن گئے۔ شہ دماغوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ ان بسوں کو کنڈکٹروں، ڈرائیوروں اور ٹکٹ چیکروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے کارڈ سسٹم رائج کیا جائے۔ بالکل ایسے ہی جیسے موبائل فونز کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ انتظام ناکام رہا۔ اول تو لوگوں کو یاد ہی نہیں رہا کہ کارڈز کہاں سے ملتے ہیں۔ پھر ان بسوں کے روٹ بہت محدود ہیں۔ اس ضمن میں ایک ہی مثال کافی ہو گی۔ نہر کنارے چلنے والی بسیں صرف ڈاکٹرز ہسپتال سے ہی واپس ہو جاتی ہیں، جب کہ اگلی بستیاں مثلاً جوہر ٹاﺅن کے متعدد بلاک ایکسپو سنٹر، شوکت خانم ہسپتال، واپڈا ٹاﺅن اور نیسپاک ایسی درجنوں بستیاں آمدورفت کی سرکاری سہولت سے محروم ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی کسی نے یہ تحقیق فرمانا گوارا نہیں کیا کہ سپیڈو بس سسٹم نفع میں جا رہا ہے یا نقصان میں، یا انہیں عوام کےلئے کس طرح مفید بنایا جا سکتا ہے۔ ان بسوں کا اس طرح خالی چلنا قومی خزانے پر بوجھ ہے۔
٭........٭........٭
میرے شوہر کو غیر شادی شدہ کیوں کہا؟ مودی کی اہلیہ مدھیہ پردیش کی گورنر پر برس پڑیں
مودی کی اہلیہ جن کا نام تو یشودہا رانی ہے، مگر اُنہیں عام طور پر یشودہا بہن کہا جاتا ہے، طویل عرصہ سے نریندر مودی سے الگ رہ رہی ہیں،خاتون اول ہونے کی حیثیت سے اُنہیں ہر سرکاری تقریب میں مودی صاحب کے ساتھ ہونا چاہئے مگر نامعلوم وجہ سے وہ پس منظر میں رہ رہی ہیں۔ مودی اور یشودہا کی ازدواجی زندگی کا یہ عالم ہے کہ 90 فیصد بھارتیوںکو یہ علم نہیں کہ مودی جی کی کوئی پتنی بھی ہے ۔ ان حالات میں مدھیہ پردیش کی گورنر آنندی بین پٹیل اگر کہہ بیٹھی ہیں کہ مودی غیر شادی شدہ ہیں، تو اس پر یشودہا جی کو مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ممکن ہے یشودہا نے مس پٹیل سے کوئی خطرہ محسوس کیا ہو، اور پیشتر اس کے کہ بات آگے بڑھے اور معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، بلاتاخیر نہ صرف تردید کرنا بلکہ اُنہیں ڈانٹنا بھی ضروری سمجھا کہ خبردار! اگر آئندہ اُنہیں غیر شادی شدہ کہا تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔ ایشور کی کرپا سے میں اُن کی پتنی کی حیثیت سے موجود ہوں۔ مودی جی نے اگرچہ یشودہا کو نظرانداز کر رکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یشودہا کے من میں سیتا جی کی آتما زندہ ہے۔ اگر مودی کو ذرا بھی انسانی جذبات کا احساس ہے تو اُنہیں اپنی پتنی کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھنا چاہئے، کہ ایسی پتنیاں اب ناپید ہو گئی ہیں جو پتی کے ساتھ ہی چتا میں ستی ہو جاتی تھیں۔
٭........٭........٭
شیخ رشیدکو اداکارہ ارمینا خان کے بعد ریحام نے بھی کھری کھری سُنا دیں
شیخ رشید جب کسی چینل پر جلوہ گر ہوں تو وہ بولنے سے پہلے تولتے نہیں۔ کسی چینل پر ریحام کی کتاب کے بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ریحام کو ایک ہزار طوائفوں سے بھی بدتر قرار دے دیا۔ پروگرام کے دوران شیخ رشید نے جارحانہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان فلم انڈسٹری کےلئے بھی ناشائستہ زبان استعمال کی، جس پر اداکارہ ارمینا خان بھی بھڑک اُٹھیں۔ خواتین کے بارے میں بات کرتے ہوئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اور پھر ایسے شخص کو جسے الیکشن کمشن نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا اہل قرار دے دیا ہو۔ چونکہ انتخاب میں حصہ لینے کا اہل وہ شخص ہی ہو سکتا ہے جو صادق اور امین ہو۔ اُنکے امین ہونے کے بارے میں اُنکے ماضی سے قطع نظر، سرِدست اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی اُنکے امین ثابت ہونے کا موقعہ نہیں آیا۔ جب کوئی ایسا وقت آیا تو پھر ہی کوئی حکم لگایا جا سکے گا۔ جہاں تک اُنکے صادق (سچ بولنے والا) ہونے کا تعلق ہے، تو وہ مخالفین کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں اُسکے بارے میں مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں اس لئے کہ سبھی جانتے ہیں۔ کم از کم اب شیخ رشید کو اس حوالے سے محتاط ہونا چاہئے کہ اُنہیں صادق اور امین ہونے کی سند مل چکی ہے۔ اُنہیں الزام تراشی اور اتہام بازی سے اس قدر دوررہنا چاہئے کہ جیسے یہ عادتیں ناگ ہوں، کہ جس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔
٭........٭........٭