زعیم قادری جذبات سے گریز پارٹی انکے تحفظات دور کرے
قومی اسمبلی کے حلقہ 133 سے ٹکٹ نہ ملنے پر سابق صوبائی وزیر اور مسلم لیگی رہنما سید زعیم قادری باغی ہو گئے۔ انہوں نے نہ صرف خود این اے 133 سے حمزہ شہباز کیخلاف آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا بلکہ نیچے کے دو صوبائی حلقوں میں بھی اپنے دو ساتھیوںکو آزاد حیثیت سے نامزد کردیا جبکہ مخصوص نشستوں پر انکی اہلیہ عظمیٰ قادری نے پارٹی ٹکٹ واپس کر دیا۔
زعیم قادری سینئر لیگی لیڈر ہیں، وہ کئی سال مسلم لیگ ن پنجاب کے ترجمان رہے ہیں جو قیادت کی طرف سے ان پر اعتماد کا اظہار تھا۔ پارٹی کو مضبوط بنانے میں انہوں نے انتھک محنت کی اور جرنیلی آمریت میں قید و بند سمیت پارٹی کیلئے قربانیاں بھی دیں۔ پارٹیوں کے اندر اختلافات کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ان کے بقول قیادت نے انہیں نظرانداز کیا اور انکی خواہش پر حلقہ این اے 133 سے انہیں ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر وہ پریس کانفرنس کے دوران اشتعال میں نظر آئے، انکے بہت سے دوست مسلم لیگ ن میں ہیں، انہوں نے خود بھی پارٹی میں ہی رہنے کا عزم کیا ہے۔ انکی پارٹی کو اس پریس کانفرنس سے بڑا جھٹکا لگا ہے جس کو وہ تحریک انصاف کی طرف سے اس میں شامل ہونے کی دعوت کے باوجود خیرباد نہیں کہنا چاہتے۔ پارٹی قیادت کی طرف سے زعیم قادری کی پریس کانفرنس کا ترکی بہ ترکی جواب سے گریز کیا جا رہا ہے۔ گویا ان پر پارٹی کے دروازے بدستور کھلے ہیں۔ پارٹی کی سینئر قیادت نے انکے تحفظات پر غور کرنے کی بات کی۔ زعیم قادری اپنے اعتراضات پبلک کرنے اور ذاتیات پر اترنے کے بجائے معاملہ پارٹی کے اندر اٹھاتے تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے بہرحال جاہ و جلال کے ساتھ پریس کانفرنس کر لی، اب اس معاملے پر مزید میڈیا سے بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ وہ پارٹی میں واپسی کے یکطرفہ طور پر دروازے بند کرنے سے بھی احتراز کریں۔ پارٹی کو واقعتاً ایسے کارکنوں اور رہنماﺅں کی ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہئے مسلم لیگ ن ایسے لیڈر کو نہیں کھوئے گی۔