ہر ادارے اور نگران سیٹ اپ کا اپنے اصل مینڈیٹ تک محدود رہنا ضروری ہے
جوڈیشل ایکٹوازم ! سپریم کورٹ کا پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے اور ٹیکس عائد کرنے کا سخت نوٹس
سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس میں سیکرٹری پٹرولیم‘ سیکرٹری وزارت توانائی اور چیئرمین ایف بی آر کو عدالت میں طلب کرلیا۔ فاضل عدالت نے پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ‘ چھ ماہ کے آکشنز اور قیمتوں میں تعین کا ریکارڈ بھی مانگ لیا ہے۔ گزشتہ روز دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ ٹیکس لگا کر لوگوں کو پاگل کردیا گیا ہے‘ کس بات کا ٹیکس ہے‘ سب کو حساب دینا ہوگا‘ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس طریقہ کار کے تحت فی لٹر نرخوں کا تعین کیا گیا ہے۔ دوران سماعت پی ایس او کے ڈپٹی ایم ڈی نے فاضل عدالت کو بتایا کہ مختلف ادارے تین سو ارب روپے کے نادہندہ ہیں جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان اداروں سے یہ رقوم واپس کیوں نہیں لی جارہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ بنکوں سے قرض لیکر معاملات چلا رہے ہیں۔ اس پر ڈپٹی ایم ڈی یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ بنکوں سے 94‘ ارب روپے قرضہ لیا گیا ہے۔ ہر سال سات ارب روپے بنک سود کی مد میں جاتے ہیں۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ گھر بیٹھے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں‘ سارا حساب دینا ہوگا۔
ایک دوسرے کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں نے قرضے لے کر معاف کرالئے‘ سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ پاکستانی قوم مقروض نہ رہے‘ قرضے معاف کرانے والے لوگ ایسے مظلوم بن جاتے ہیں جیسے انکے پاس روٹی کھانے کے بھی پیسے نہ ہوں۔ آج ان کیخلاف تحقیقات کرائی جائیں تو انکے پاس بی ایم ڈبلیو‘ وی ایٹ اور نہ جانے کون کون سی گاڑیاں نکلیں گی۔ قرضے معاف کرانے والوں نے اپنی زندگی بنا کر عاقبت خراب کرلی۔ اس وقت ہر پیدا ہونیوالا بچہ ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ پنجاب میں چار ارب روپے لگے مگر شہریوں کو پانی کی ایک بوند نہیں ملی۔ سپریم کورٹ کا مزاج لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے‘ ہم یہاں لوگوں کو سہولتیں دینے کیلئے بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنے بچوں کے حقوق کا تحفظ کرینگے۔
یہ امر واقع ہے کہ روزمرہ کے گوناںگوں مسائل میں گھرے عوام کو چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے شروع کی گئی جوڈیشل ایکٹوازم سے اپنے روٹی روزگار کے مسائل کے حل اور دکھوں کے مداوا کیلئے امید کی کرن بھی نظر آرہی ہے اور کچھ نہ کچھ ریلیف بھی مل رہا ہے تاہم عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں نے آئین میں متعین اپنے دائرہ¿ کار اور اختیارات کے اندر ہی اپنے فرائض منصبی ادا کرنے ہیں۔ اگر ریاستی آئینی ادارے اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کے امور کو نمٹانے کیلئے اپنے اختیارات استعمال کرینگے تو اس سے ادارہ جاتی کشیدگی‘ ٹکراﺅ اور محاذآرائی کی فضا ہموار ہوگی جس سے ریاستی اداروں کی کارکردگی کا متاثر ہونا بھی فطری امر ہوگا۔ بے شک فاضل چیف جسٹس اصلاح معاشرہ کے جذبے اور نیک نیتی کے تحت مفادعامہ کے حوالے سے آئین کی دفعہ 184 کی بنیاد پر مختلف اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کی گوشمالی کررہے ہیں تاہم اسکے نتائج ادارہ جاتی اصلاح احوال سے زیادہ روزانہ کی پیشیوں اور سرزنش کی بنیاد پر اداروں کی کارکردگی متاثر ہونے کی صورت میں برآمد ہورہے ہیں۔ بے شک فاضل چیف جسٹس ریاستی اداروں میں سالہا سال سے درآنیوالی خرابیوں پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ خرابیاں دور کرنے کیلئے اپنے عدالتی اختیارات بروئے کار لانے کا عندیہ دیتے ہیں تاہم اس سے ہر مرض کے علاج کیلئے سپریم کورٹ کے امرت دھارا بننے کا تاثر عوام میں راسخ ہوگا تو پھر آئینی تقاضوں کے مطابق سسٹم کو چلانا مشکل ہو جائیگا۔ اس تناظر میں مناسب تو یہی ہے کہ جس ریاستی ادارے کے جو اختیارات ہیں صرف انکی انجام دہی پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور جو خرابیاں فاضل عدالت کے نوٹس میں لائی جاتی ہیں‘ انہیں دور کرنے کی متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی جائیں۔ اس سے یقیناً اصلاح احوال کا مقصد بھی پورا ہوگا اور ادارہ جاتی محاذآرائی کی فضا بھی پیدا نہیں ہوگی۔ اس طرح سسٹم بھی آئینی تقاضوں اور عوامی امنگوں کے مطابق چلتا رہے گا۔
فاضل چیف جسٹس کا پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے اور ان پر عائد مختلف ٹیکسوں کا نوٹس لینا اپنی جگہ ایک صائب اقدام ہے تاہم اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ نگران حکومت کا مینڈیٹ صرف روزمرہ کے معاملات نمٹانے اور آزادانہ شفاف انتخابات کے انتظامات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے تک محدود ہے۔ اسے کسی پالیسی معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے کا قطعاً اختیار نہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا تعین بھی حکومت کے پالیسی معاملات کا حصہ ہے جو آئین کے تحت انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر اقتدار میں آنیوالی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس تناظر میں نگران سیٹ اپ کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے تعین کا معاملہ بہرصورت منتخب سیٹ اپ کے قیام تک مو¿خر رکھنا چاہیے اور اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں پر نظرثانی کرنا بھی منتخب حکومت ہی کا کام ہے۔ اس حوالے سے نگران حکومت کی جانب سے کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو وہ یقیناً اسکے دائرہ¿ اختیار سے باہر ہوگا جس کا فاضل عدالت عظمیٰ اپنے آئینی اختیارات کے تحت نوٹس لینے کی مجاز ہے۔
اصولی طور پر تو منتخب حکمرانوں کی جانب سے بھی عالمی مارکیٹ کے نرخوں کی بنیاد پر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ گزشتہ چھ ماہ سے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کے نرخوں میں تسلسل کے ساتھ کمی ہورہی ہے اور عالمی مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے پٹرول کے جو نرخ سامنے آئے وہ کم سے کم سطح کے 61 ڈالر فی بیرل کے تھے اور یہ نرخ تیل کی پیداوار میں اضافے کے باعث بتدریج کم ہورہے ہیں مگر ہماری سابقہ منتخب حکومت نے اسکے برعکس پہلے ہر پندرہ روز بعد اور پھر ہر ماہ بعد پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ردوبدل کرتے ہوئے ان میں مسلسل 9 ماہ تک اضافہ کرنے کی پالیسی ہی اختیار کئے رکھی جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنا بھی فطری امر تھا۔ اس طرح عوام کو توانائی کے بحران سمیت منتخب حکومت کے پیدا کئے گئے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی بنیاد پر ہر ماہ مہنگائی کے نئے طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑا جس سے عوام میں اضطراب کی فضا پیدا ہونا بھی فطری امر تھا۔ اسی فضا میں فاضل چیف جسٹس نے جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد پر حکومتی اور ادارہ جاتی معاملات کا ازخود نوٹس لینا شروع کیا تو اس سے بادی النظر میں انتخابی میدان میں اترنے والی حکمران جماعت کیخلاف رائے عامہ ہموار کئے جانے کا تاثر پیدا ہوا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابقہ حکومت کے پالیسی معاملات کے تحت ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں پر نظرثانی اور اضافی ٹیکس عائد کئے جاتے رہے ہیں جو موجودہ نگران سیٹ اپ میں بھی برقرار ہیں۔ نگران حکومت نے اپنے اقتدار کا پہلا ایک ہفتہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کسی قسم کا ردوبدل کئے بغیر گزار لیا مگر اگلے ہی ہفتے عیدالفطر سے ایک روز قبل عوام پر پٹرول بم گرا کر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پانچ روپے فی لٹر تک اضافہ کردیا گیا چنانچہ فاضل عدالت کو نگران سیٹ اپ کے اس معاملہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ اس نے روزمرہ کے معاملات نمٹانے کی ذمہ داری سے باہر نکل کر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ردوبدل کے پالیسی معاملہ پر کیوں فیصلہ کیا جبکہ اسکی طرف سے عائد کئے گئے پٹرولیم مصنوعات کے نئے نرخوں سے ملک میں عملاً مہنگائی کا سونامی آگیا ہے۔ اس بنیاد پر فاضل عدالت نگران حکومت کے اختیارات سے متجاوز اقدام کو کالعدم قرار دے سکتی ہے تاہم اسے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کے حوالے سے کوئی ایسا اقدام اٹھانے کا نہیں کہا جا سکتا جو حکومتی پالیسی معاملہ کے زمرے میں آتا ہو۔ نگران حکومت کو بھی خود کو روزمرہ کے امور نمٹانے تک ہی محدود رکھنا چاہیے اور پالیسی معاملات آنیوالی منتخب حکومت پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ اگر نگرانوں نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کا وطیرہ اختیار کرلیا تو پھر اصلاح احوال کا مقصد پورا ہوگا نہ سسٹم کے ٹریک پر رہنے کا تصور پختہ ہو پائے گا۔