چودھری نثار علی خان کے بعد اب زعیم قادری نے بھی مسلم لیگ ن میں کھڑاک کر دیا۔ چودھری نثار علی خان کے بقول وہ مریم نواز کی جی حضور نہیں کر سکتے اور زعیم قادری نے حمزہ شہباز کے بوٹ پالش کرنے سے انکار کر دیا ہے۔پرانے مسلم لیگیوں کی انا کی یہ جنگ ہے یا ٹکٹوں کا رولا ہے ؟ زعیم قادری کا معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب لیگی قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کیلئے توصیف شاہ پلٹ گئے اور انہوں نے زعیم قادری کی ایک ریکارڈ شدہ فون کال پارٹی قیادت کو سنادی جس میں زعیم قادری نے حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی۔سیاسی کارکن قیادتوں کے خلاف آف دی ریکارڈ اکثرغم و غصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور قیادتیں بھی کارکنوں کے خلاف متکبرانہ اور توہین آمیز رویہ ظاہر کرتی رہتی ہیں لیکن کارکنوں کی خاندانی اور دیرینہ وفاداری اور خدمات کو یکسر نظر انداز کر دینا قیادتوں کو کسی صورت زیب نہیں دیتا۔ زعیم قادری پر کسی کو فوقیت دینا بے انصافی اور تنگ نظری کا ثبوت ہے۔شریف برادران کو وقت اور حالات کی نزاکت کا شاید اندازہ نہیں۔ زعیم قادری اور چودھری نثار کے کھڑاک مسلم لیگ ن میں شگاف ڈال دیں گے۔نواز اور شہباز گروپ تقسیم ہو چکے ہیں۔ زعیم قادری شاید نواز گروپ کے سمجھے جاتے ہیں جو آج شہباز اور حمزہ کے خلاف محاذ آرائی کھل کر سامنے آگئی۔مریم اور حمزہ میں آجکل بہت سلوک دکھائی دیتا ہے۔ مریم نے حمزہ کو تسلی دی ہے کہ وہ جب کبھی وزیر اعظم ہوں گی تو وہ حمزہ کو وزیر اعلی پنجاب بنائیں گی۔ شریف برادران تک پار ٹی متحد تھی لیکن آگے بچوں کی بادشاہت پر پارٹی تقسیم ہو رہی ہے۔ زعیم قادری وزارت نہ ملنے پر بھی پارٹی قیادت سے نالاں تھے جبکہ انہیں مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ سے بھی نکال دیا گیا تھا۔زعیم قادری پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا ذمہ دار حمزہ شہباز کو سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز کو آڑے ہاتھوں لیا۔زعیم قادری نے حمزہ شہباز کو الیکشن کیلئے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ اپنے نوکروں، مالیشیوں اور بوٹ پالیشیوں کا یونٹ لاو¿ اور الیکشن لڑو، میرا الیکشن تمہارے ساتھ ہے، تم نے 10 سال صوبے پر حکومت کی، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے، سر نہیں جھکاﺅں گا، حمزہ شہباز کی نوکری نہیں کروں گا، نوکری کروں گا تو کارکنوں کی کروں گا، میں حمزہ شہباز شریف کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا، اور حمزہ شہباز سن لو لاہور تمہارے اور تمہارے باپ کی جاگیر نہیں، میں تمہیں سیاست کرکے دکھاو¿ں گا، این اے 133 میں جیت کر دکھاو¿ں گا، آج سے الیکشن اور جنگ اکٹھی ہوگی، حمزہ شہباز 10 سال میں کسی سے نہیں ملے میں ہر کارکن کے ساتھ کھڑا ہوں گا، حمزہ تم نہیں بلکہ میں ہی مسلم لیگ ہوں۔
زعیم قادری کا کہنا تھا کہ میں مالیشیا نہیں ہوں، تمہارے لئے جان،مال دیا اور جیل کاٹیں، جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو ضائع نہیں کیا جاتا لیکن انہیں ضائع کیا گیا، شہباز شریف سے گلہ ہے انہوں نے دس سال مجھے نہیں پوچھا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ پارٹی میں کچھ لوگوں کو تمھاری شکل پسند نہیں، یہ مجھے سیاسی یتیم سمجھتے ہیں، لیکن سیاسی یتیم ہونے کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔
زعیم قادری نے بتایا کہ میری اہلیہ نے کہا ہے کہ وہ نوکرانیوں، چائے پلانے والوں کی بیویوں اور ذاتی ملازماو¿ں کی لسٹ میں نہیں رہنا چاہتیں، اس لیے انہوں نے ن لیگ کی خواتین کی مخصوص نشستوں سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز اور شہباز شریف کے خلاف گفتگو کرنے پر زعیم قادری کو ٹکٹ نہیں دیا گیا،شریف قیادت کو ان کا انداز پسندنہیں آیا۔زعیم قادری نے این اے 133کیلئے ٹکٹ مانگا تھا لیکن پتا چلا انہیں این اے 133کا ٹکٹ نہیں دیا جارہا، جب انہوں نے صوبائی اسمبلی کی بات کی کہ صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ دی جائے گی۔ وہ صوبائی ٹکٹ لینے کیلئے حمزہ شہباز سے بات کرلیں، جس پر انہوں نے کہا کہ وہ حمزہ شہباز سے مزید بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق اس کی اندرونی کہانی کچھ اور ہے، جس دن ٹکٹوں کا فیصلہ ہونا تھا میں آبزرور کی حیثیت سے وہاں موجود تھا، بطور صحافی ہم بہت سارے لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ زعیم قادری نے جب ٹکٹ کی میٹنگ تھی تو اس میں بھی اپنا دفاع پیش کیا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کے بارے میں ن لیگ کی قیادت کے کچھ تحفظات ہیں جن کو وہ بیان کررہے ہیں، میں نے بعد میں پتا کروایا کہ کیا بات ہے؟ زعیم قادر ی تو بہت وفادار اور ان کی فیملی بھی مسلم لیگی ہے، ان کے والد صاحب بھی بڑے پکے مسلم لیگی تھے پھرآخر کیا بات ہوئی ہے،پتا یہ چلا کہ کچھ لوگوں نے زعیم قادری کی کچھ باتیں ریکارڈ کروا کر چیف منسٹر شہباز شریف اور نواز شریف کو سنوائی ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس گفتگو میں وہ ان کے خلاف کچھ باتیں کررہے تھے۔ ا س وجہ سے یہ غلط فہمیاں بڑھی ہیں، میرا خیال ہے کہ زعیم قادری عام طورپر gossip اور ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے ہیں اور اپنے دوستوں میں ذرا کھل بھی جاتے ہیں، شریف قیادت کو انکا یہ انداز پسند نہ آیا،یہ طے تھا کہ اس دفعہ انہیں قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں ملے گا، شاید اسی لئے زعیم قادری کو بھی یہ علم تھا کہ مجھے ٹکٹ نہیں دیاجائے گا۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024