میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور پاکستان میں سیاست کے ساتھ جو کچھ بھی منسوب کیا جاتا ہے اس پر صرف یہی کہہ دینا منفی ردعمل کو دعوت دینے کے مترادف ہے مگر مجھے پھر بھی اس پر فخر ہے۔ تین دہائیوں سے ایک فعال سیاسی کارکن ہونے کی وجہ سے مجھے کئی اہم مواقع پر اپنی رائے دینے کا موقعہ ملا ہے، میں نے 90ءکی پُرتشدد سیاست دیکھی ہے، میں نے تقریباً ایک دہائی تک جاری رہنے والی آمریت کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ اس کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ہے اور اس کے نتیجہ میں ملنے والی مشکلات کو بھی جھیلا اور اس کے بعد آنے والے جمہوری ادوار کو بھی دیکھا ہے، ایک بڑی سیاسی قوت کو ڈوبتے اور ایک نئی سیاسی قوت کو ابھرتے دیکھا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کامیاب سیاستدان کسے کہتے ہیں؟ آپ جتنی مرتبہ MNA/MPA منتخب ہوں یہ کامیابی ہے یا آپ کا ووٹ بینک کتنا بڑا ہے؟ میرے ذاتی خیال میں ایک کامیاب سیاستدان وہ ہے جو بدامنی یا معاشرتی انتشار کے دور میں ”استحکام“ کا آغاز کر سکے۔
قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد اپنی، کسی شخص، یا سیاسی پارٹی کی تشہیر ہرگز نہیں ہے۔ اس تحریر کا مقصد صرف اپنے ان خیالات کا اظہار ہے جو میری نظر میں ہمارے موجودہ مسائل کا ممکنہ حل ہو سکتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمارے لیے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی سرچ انجن پر لفظ ”کرپشن“ سرچ کریں گے تو آپ کو دنیابھر سے اس سلسلہ میں خبریں یا رپورٹس اور ان کے لیے ہونے والے اقدامات مل جائیں گے۔
برازیل میں کیا ہو رہا ہے؟ عوام ایک ایسے قانون کو ختم کرنے کے لیے کیوں لڑ رہے ہیں جس کے تحت سیاست دانوں کو ان کے غیر قانونی اقدامات پر عدالت نہیں لے جایا جا سکتا، کم از کم ہمیں اس بات کی تسلی ہونی چاہیے کہ ایسا قانون پاکستان میں لاگو نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اگر کسی کا احتساب بھی ہوا ہے تو صرف سیاستدانوں کا۔ Bolivia کے عوام بھی اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ یہ بات کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ کرپشن ایک ناسور ہے اور یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں حالات اور مفاہمت کے تحت طاقتور افراد کی کئی سرگرمیوں کو نظرانداز کیا گیا، ہاں مگر یہ ہمارے لیے کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس دنیا کی کچھ تلخ حقیقتیں ہیں۔
”استحکام“ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہمارے ملک میں ہر مطلب پرست نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا، اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس لفظ کی جتنی ضرورت آج پاکستان کو ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ نواز شریف کی دانشمندانہ قیادت کی بدولت ’چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘ جیسا بین الاقوامی منصوبہ اور دنیابھر میں پاکستان کی بطور امن پسند ملک پذیرائی، یہ سب صرف اس ”استحکام“ کی بدولت ہوا ہے جس میں تمام سیاسی قوتوں کا ہاتھ ہے، ماسوائے ان کے جنہوں نے اپنی انا کی تسکین کے لیے پاکستان کی تاریخ کے اہم دنوں میں اسلام آباد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اب اگر ”چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور“ نے اگلے مرحلے میں داخل ہونا ہے تو اس کے لیے پاکستان میں استحکام لازم ہے۔ کوئی بھی ایسا قدم جو ہمیں انتشار کی طرف لے جائے اور ملکی ترقی کے لئے جاری منصوبوں پر منفی اثرات ڈالے، بطور قوم ہمیں ہر ایسی سازش کو کچلنا ہوگا، موقعہ پرستوں کو یاد دلانا ہوگا کہ یہ وقت اپنا اُلو سیدھا کرنے کا نہیں بلکہ ملک پرستی دکھانے کا ہے۔ میرا اشارہ پانامہ لیکس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جانب ہے۔ موقع پرستوں نے اسے ایک سنہری موقع جانتے ہوئے ایک وبال مچا رکھا ہے، میں نے TV اور اخبارات میں ہونے والی گفتگو کو پڑھا اور سنا، TOR پر ہونے والا ڈیڈ لاک اس بات پر نہیں کہ احتساب ہونا چاہیے یا نہیں، اختلاف صرف اس پر ہے کہ آغاز کہاں سے کریں؟
فرطِ جذبات میں ہونے والی بحث میں میرے دوست یہ بھول جاتے ہیں کہ آغاز وہ نہیں جو میں یا آپ چاہتے ہیں، آغاز وہ ہے جو ہم سب چاہتے ہیں، آغاز وہ ہے جو گلوبل حالات اور واقعات کو مدنظر رکھ کے کیا جائے۔ میرا اشارہ پھر ” چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور“ کی جانب ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ منصوبہ ہمسایہ ممالک کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے اور یہ ممالک اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس نازک وقت میں ہمیں ضرورت صرف اس ”آغاز“ کی ہے جو ہمیں اُس راستے پر ڈال دے اور جو آگے چل کر اس مسئلے کا دیر پا حل بنے اور بے لاگ احتساب کے نتیجے میں کرپٹ عناصر اپنے انجام کو پہنچیں اور ممکن ہے کہ بہت سے دوست اختلاف کریں اور سب کو ایک ہی واشنگ مشین میں ڈالنے پر زور دیں، میں اس موقف کی حمایت اس لیے نہیں کرتا کہ ماضی میں ایسے شوق ہمیں ان تاریک گلیوں میں لے گئے تھے جہاں بنیادی جمہوری حقوق بھی سلب تھے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ”کیا ممکن ہے“ اور ”کیا ضروری ہے؟“ میں ہمیشہ فرق رہے گا۔ کبھی کبھی جو ممکن ہو اس سے آغاز کرنا مستقبل میں بہتری کے دروازے کھول دیتا ہے مگر اس بات پر لڑنا اور اپنی نگاہ میں ”ضروری“ ضد، ہٹ دھرمی اور موقع پرستی حالات کو مزید بگاڑ دیتی ہے۔ ہم بنیادی طور پر ایک جذباتی قوم ہیں۔ کرکٹ اور سیاست میں ” آج نہیں تو کبھی نہیں“ والی سوچ پر متفق ہیں اور یہ جذبات ضروری بھی ہیں کیونکہ ان جذبات کی بدولت ہی نہ صرف اس قوم نے ہر مشکل حالات کا سامنا کیا بلکہ سرخرو ہوئی، مگر آج ہمیں جذبات سے زیادہ تحمل کی ضرورت ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم ہر اس چیز کو جو ہمیں بطور ملک و قوم ترقی کرنے سے روکتی ہے، دوبارہ جانچ لیں، انہی میں سے ایک قابل جانچ وہ سوچ ہے جو ہر ایک واقعہ کو ایک سازش کے طور پر دیکھتی ہے ، اس ملک کا منتخب وزیراعظم اگر آپریشن کے بعد خود سیڑھیاں اُترے تو ناقدین کی نظر میں آپریشن ہوا ہی نہیں۔ اپنی اس تحریر کا اختتام اس درخواست کیساتھ کرتا ہوں کہ اس مبارک مہینے میں ہم سب کو ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے دعا کرنی ہے۔