اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی + خبرنگار) ایوان بالا کے ارکان نے مسلم لیگ (ن) کی خاتون رکن قومی اسمبلی انوشہ رحمان کے ایک انگریزی اخبار میں شائع آرٹیکل میں چیئرمین سینٹ اور ایوان بالا کے حوالے سے ریمارکس کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ متعلقہ رکن اسمبلی کو استحقاق کمیٹی میں بلا کر وضاحت طلب کی جائے تاہم چیئرمین سینٹ نے سینیٹر اسحق ڈار کی طرف سے متعلقہ رکن اسمبلی سے اس معاملے پر بات کر کے (آج) ایوان میں رپورٹ پیش کرنے کی یقین دہانی پر یہ معاملہ آج تک ملتوی کر دیا اور کہا کہ سینیٹر اسحق ڈار کی رپورٹ کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ قائد ایوان نیئر حسین بخاری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پارلیمانی تاریخ میں سپیکر اور چیئرمین کی رولنگ کے حوالے سے ریمارکس دینا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ چیئرمین سینٹ کے حوالے سے جو ریمارکس دیئے گئے ہیں یہ نہ صرف چیئرمین بلکہ پارلیمنٹ کی توہین ہے اس سے نہ صرف ارکان سینٹ بلکہ عوام کے جذبات بھی مجروح ہوئے ہیں، ایوان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور جس رپورٹر نے یہ خبر دی ہے اس کے خلاف پارلیمنٹ کی توہین کی کارروائی ہونی چاہیے۔ سینیٹر اسحق ڈار نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی تقرری کے حوالے سے بحث جاری ہے، میں نے ہمیشہ چیئرمین کے عہدے کا احترام کیا ہے میں متعلقہ رکن قومی اسمبلی سے بات کروں گا جس نے یہ آرٹیکل لکھا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ یہ معاملہ ایوان میں زیر بحث ہے ان پر اس طرح تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ چیئرمین کے عہدے کے حوالے سے اس طرح کے ریمارکس دینا مناسب نہیں۔ اسحق ڈار نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے پر اپنی جماعت کے رکن قومی اسمبلی سے بات کریں گے اس معاملے کو کمیٹی میں بھیجا جا سکتا ہے۔ سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ چیئرمین نے قائد حزب اختلاف کی تقرری کے حوالے سے جس رویئے کا مظاہرہ کیا ہے اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ سینیٹر رحمت اللہ کاکڑ نے کہا کہ خاتون رکن قومی اسمبلی نے چیئرمین کے عہدے، پارلیمنٹ اور اس نظام پر وار کیا ہے، متعلقہ رکن کو کمیٹی میں بلا کر وضاحت طلب کی جائے۔ معاملہ استحقاق کمیٹی کو بھجوایا جائے‘ ڈپٹی چیئرمین جان محمد جمالی نے کہا کہ قائد ایوان کی تقرری اہم معاملہ ہے اس پر ارکان کو بیان بازی نہیں کرنی چاہئے‘ دریں اثنا رضا ربانی نے قائد حزب اختلاف کی تقرری کے معاملے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینٹ کو اپنی رولنگ پر نظرثانی کی گنجائش موجود نہیں۔ ایوان اگر کسی معاملے پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتا ہے تو اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کے تقرر کے معاملے پر چیئرمین سینٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔ ق لیگ کے 9 ناراض ارکان پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا انہیں ووٹ کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024