لاہور (پ ر) گذشتہ کچھ عرصے سے میڈیا میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی طرف سے الیکشن کمشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیل پر مختلف تبصرے شائع اور نشر ہو رہے ہیں۔ ان خبروں اور تبصروں میں وزیراعلیٰ کے بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں بعض سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ شریف فیملی کی طرف سے اس امر کی پہلے ہی وضاحت کی جا چکی ہے کہ وزیراعلیٰ کی بیرون ملک ذاتی سرمایہ کاری کی کل مالیت تین کروڑ روپے سے زیادہ نہیں جبکہ یہ سرمایہ کاری انہوں نے برطانیہ میں جلاوطنی کے دنوں میں اپنی اور اہل خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس وقت کی تھی جب وہ ایک سنگین مرض کے علاج کے سلسلے میں لندن مقیم تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ سے وزیراعلیٰ کی پاکستان واپسی کے بعد اس سرمایہ کاری میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ نے اپنے بیرون ملک اثاثے (جن میں ان کی ذاتی سرمایہ کاری 18فیصد سے زیادہ نہیں اور باقی رقم قرضوں پر مشتمل ہے) بیچ کر ان اثاثوں پر موجود تمام مالی واجبات ادا کرنے اور باقی ماندہ رقم کو پاکستان لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے اس فیصلے کے تحت برطانیہ میں موجود ان کے اثاثوں کی فروخت اور بینکوں کی ادائیگی کا کام پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔ میں یہاں اس امر کا جواب بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیراعلیٰ کو برطانیہ میں کاروبار کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے یہ سرمایہ کاری اپنی زبردستی جلاوطنی کے دوران اس وقت کی تھی جب ایک غاصب اور ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے شریف فیملی پر پاکستان میں رزق کمانے کے تمام دروازے عملی طور پر بند کر دئیے تھے۔ اس وقت کے آمر نے شریف فیملی کے معاشی قتل کے لئے گھناﺅنے اقدامات کئے تھے اس کی تفصیلات سے پاکستان کے عوام بے خبر نہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ میری ان معروضات سے آپ کو حقائق کو ان کے حقیقی پس منظر میں دیکھنے اور سمجھنے میں مدد ملے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024