صدر زرداری اور میاں نواز شریف کی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست .... یہ وقت ملک کی سلامتی کی فکر کرنے کا ہے یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا؟
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہماری سوچ جیت رہی ہے‘ مولوی نواز شریف کی سوچ شکست کھا رہی ہے۔ میں نے مفاہمت کی کتاب پڑھی ہے جبکہ نواز شریف جنرل ضیاءالحق کی سیاست چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں فوج سے لڑانا چاہتے ہیں مگر ہم نہیں لڑیں گے۔ منگل کی شب نوڈیرو میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کی 58ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سخت لہجے میں میاں نواز شریف کو باور کرایا کہ ہم نے پنجاب حکومت انہیں پلیٹ میں رکھ کر دی‘ کیا مجھے انکے وہ آنسو یاد نہیں جو انہوں نے جیلوں میں بہائے تھے۔ کاغذی شیر اب کیوں ببرشیر بن رہے ہیں؟ نواز شریف کے دل میں قوم کیلئے درد ہوتا تو وہ ملک چھوڑ کر نہ بھاگتے‘ انکی سوچ لوہار والی ہے۔ انہوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں حکومت کی مخالفت کرنیوالے سیاست دانوں‘ دانشوروں اور اینکرز کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ سیاسی اداکاروں کی سرخیوں اور پروگراموں سے نہیں ڈرتے‘ یہ اپنا منفی پراپیگنڈہ بند کریں۔ انکے بقول وہ وقت جلد آئیگا جب چینلز پر اداکار نہیں‘ دانشور بیٹھیں گے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو طنزیہ لہجے میں باور کرایا کہ انکی سوچ ملاعمر کی سوچ ہے‘ وہ کچھ ہم سے سیکھ لیں یا کسی اور کو اپنا استاد بنالیں‘ وہ مجھے اپنا استاد بنالیں تو میں انہیں بہت کچھ سکھا دوںگا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ صدر زرداری نے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر انکی قبر کے پاس کھڑے ہو کر ایک جانب تو اپنی مفاہمت کی سیاست کا کریڈٹ لیا اور دوسری جانب اپنے منصب کا بھی خیال نہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے قائد میاں نواز شریف کو انتہائی عامیانہ انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا‘ جو سیاسی محاذ آرائی کی موجودہ فضا میں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس فضا میں جب قومی سیاسی قائدین ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور اپنے گندے کپڑے سرِبازار دھوتے نظر آئینگے تو اس سے جمہوریت‘ قومی سیاست اور اس سے وابستہ سیاسی قائدین کے بارے میں ان حلقوں میں کیا تاثر اور رائے قائم ہو گی جو اپنے غیرجمہوری اقدامات کی خاطرسیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھانے کیلئے پہلے ہی موقع کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
آزاد کشمیر کے انتخابات کے سلسلہ میں متعلقہ سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کا ضرور حق حاصل ہے مگر اس مہم کے دوران قومی سیاسی قائدین جس عامیانہ اور جارحانہ انداز میں ایک دوسرے کی ذات پر رکیک حملے کر رہے ہیں اور شائستگی کی تمام حدود عبور کرتے نظر آرہے ہیں‘ اس سے سیاسی افراتفری اور انتشار کی فضا ہی پیدا ہو گی‘ جس کا فائدہ غیرجمہوری عناصر کے علاوہ لازمی طور پر ہمارا وہ مکار دشمن بھی اٹھائے گا‘ جو پہلے ہی ہماری سالمیت کو کمزور بنانے کی سازشی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے اور جنون کی حد تک اپنی جنگی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو بھی اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ انتخابی مہم کے نام پر انہوں نے حکمران پیپلز پارٹی بالخصوص صدر زرداری کے ساتھ محاذ آرائی کی جو فضا بنادی ہے‘ اسکی انتہاءکیا ہو گی اور ملک کی سلامتی کے حوالے سے اسکے کیا نتائج سامنے آئینگے؟ ان دونوں محترم سیاسی قومی قائدین کو ایک دوسرے پر گند اچھالنے کے عمل سے تھوڑا سا وقت نکال کر بھارت نواز مصنف جارج پرکووج کی کتاب ”انڈیا نیو بم“ کا مطالعہ کر لینا چاہیے جس میں بھارت کی عسکری برتری پر تفاخر کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا گیا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان کے مقابلہ میں 9 گنا زیادہ جنگی ہتھیار حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے‘ اس مقصد کیلئے بھارت کا حالیہ دفاعی بجٹ 32 ارب امریکی ڈالر تک بڑھا دیا گیا ہے جو ہمارے مجموعی بجٹ کے قریب ہے جبکہ اسکے برعکس پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ کیلئے صرف چار ارب ڈالر مختص کئے ہیں۔ مصنف کے بقول بھارت کا حالیہ جنگی بجٹ پاکستان سے 28 ارب ڈالر زیادہ بنتا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کن خطرناک عزائم پر عمل پیرا ہے۔ اسی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے پاس پاکستان کے 450 جنگی طیاروں کے مقابلے میں 1330 جنگی طیارے ہیں جبکہ پاکستان کے 40 تا 60 ایٹم بموں کے مقابلہ میں بھارت 70سے 100 ایٹم بم رکھتا ہے۔ بھارت نواز مصنف ایک دوسرے کے لتّے لینے والے ہمارے محترم سیاسی قائدین کو یہ بھی باور کرا رہا ہے کہ پاکستان کی سات لاکھ فوج کے مقابلے میں بھارتی آرمی 13 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان کے چھ سو ٹینکوں کے مقابلہ میں بھارت کے پاس ایک ہزار ٹینک ہیں۔ وہ اپنی ان جنگی صلاحیتوں پر ہی اکتفاءنہیں کر رہا‘ بلکہ اس نے جرمنی سے انتہائی بلندی اور منفی درجہ حرارت میں بھی کارکردگی دکھانے والے الٹرا ماڈرن ہیلی کاپٹروں کی خرید کا معاہدہ بھی کرلیا ہے اور وہ یورپی یونین‘ امریکہ اور نیٹو ممالک کے علاوہ روس سے بھی ہر قسم کا مہلک ترین اور جدید اسلحہ خریدنے میں مصروف ہے۔ مصنف نے بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی باور کرایا ہے کہ بھارتی فوج کو الرٹ رہنے کا حکم دےدیا گیا ہے اور اس وقت وہ تیاری کی حالت میں ہے اور اسی تناظر میں بھارت نے سندھ کی سرحد کے ساتھ حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔
یہ سنگین صورتحال باہم دست و گریباں ہمارے محترم قومی سیاسی قائدین کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ بھارت یہ جنگی جنونی تیاریاں اس خطہ میں اپنی طفیلی ریاستوں کیخلاف نہیں‘ صرف پاکستان کیخلاف کر رہا ہے جسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزائم وہ شروع دن سے رکھتا ہے۔ کیا یہ حالات اس امر کے متقاضی نہیں کہ ہمارے قومی سیاسی قائدین اپنے تمام باہمی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے اور اپنی اپنی مفاداتی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی سلامتی کی فکر کریں اور قومی یکجہتی کی فضا ہموار کرکے قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنائیں اور افواج پاکستان کے ساتھ اسکے اعتماد میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کے ماضی کو کھنگال کر ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی خاطر ایک دوسرے کو مشتعل کرنیوالے الزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دینگے تو اس سے انہیں کسی قسم کا سیاسی فائدہ تو شاید ہی حاصل ہو پائے‘ مگر ملک کی سلامتی کو ضرور ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اس تناظر میں بالخصوص صدر آصف علی زرداری پر تو بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی پارٹی کے علاوہ ملک اور مملکت کی کمان بھی انکے ہاتھ میں ہے‘ اس لئے اپنی ذات کی حد تک انہیں خود کو سیاست میں ملوث ہی نہیں کرنا چاہیے اور خود کو وفاق کی علامت تسلیم کرانا چاہیے۔ اگر وہ خود بھی نچلی سطح پر آکر عامیانہ لب و لہجے میں اپوزیشن کے قائدین کی جانب کیچڑ اچھالنا شروع کر دینگے تو پھر انکے اجلے لباس پر بھی گند کے چھینٹے ضرور پڑیں گے اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان کو فلور آف دی ہاﺅس پر یہ کہنے کا موقع بھی مل جائیگا کہ کرپشن میں ڈوبے آصف علی زرداری کو ہم صدر تسلیم نہیں کرتے۔
اسی طرح حکومت کی پالیسیوں پر تعمیری تنقید کا اپوزیشن کو حق حاصل ہے مگر اس تنقید کو ذاتیات کی حد تک نہیں لے جانا چاہیے اور ایک دوسرے کیخلاف ایسی الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے جس سے قومی سیاست‘ سیاست دانوں اور جمہوریت کا تمسخر اڑا کر ماضی کی طرح اس کا گلا دبانے کی گنجائش نکلتی ہو۔
اس وقت وفاقی حکومت کو بیرونی جارحیت کے خطرات کے علاوہ گوناںگوں عوامی مسائل اور گڈگورننس کے معاملہ میں بھی بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے عہدہ برا ہونے کے بجائے حکمران پیپلز پارٹی اور اسکے قائدین نے اداروں کے ساتھ ٹکرانے اور قومی سیاست کا مردہ خراب کرنے کی پالیسی جاری رکھی تو اس سے صرف ان کا ہی نقصان نہیں ہوگا‘ جمہوریت اور ملک کی سلامتی بھی داﺅ پر لگ سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمل سے بھی ثابت کریں کہ وہ پنجاب کا درد رکھتے ہیں
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے زیادہ پنجاب کا درد رکھتا ہوں۔ وزیر اعلیٰ ملک میں تفریق پیدا نہ کریں۔ پورا پاکستان ہمارا اور پنجاب میرا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کا ہم سے زیادہ کوئی خیر خواہ نہیں۔
وزیر اعظم گیلانی نے جو کچھ کہا اس میں شک و شبہ والی کوئی بات نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حریف جماعت کی حکومت ہے۔ مروجہ سیاست میں حریف کو نیچا دکھانے کےلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مرکز کی طرف بھی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کےلئے پریشانیاں پیدا کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے اسکے باوجود گورنر راج نافذ کردیا تھا کہ یہ خود بھی پنجاب حکومت کا حصہ تھی۔ ہر صوبہ اپنا حق مانگنے کا حق رکھتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب ایسا کہتے ہیں تو اس کو ملک میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش قرار دینا درست نہیں۔ گیلانی صاحب نے فروری2011ءکے شروع میں اعلان کیا تھا کہ 15مارچ سے گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائےگی۔ 15مارچ کیا جون کا اختتام ہے، سی این جی اسٹیشن ہفتے میں اڑھائی دن بند رہتے ہیں۔ صنعتوں کو گیس کی فراہمی کئی روز معطل رکھی جاتی ہے۔ فیصل آباد جیسے پاکستان کے” مانچسٹر“ میں 16گھنٹے بجلی بند رہے گی توایکسپورٹ کیا ہو گی۔ یہ نقصان صرف پنجاب کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ملک میں گیس کے ذخائر کی کمی ہے نہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کی۔ کچھ پاور پلانٹس تیل کی کمی، کچھ بر وقت عدم ادائیگیوں اور کچھ خرابیوں کی وجہ سے بند پڑے ہیں تو ان کو کس کی بدنیتی قرار دیا جائے؟ وزیر اعظم گیلانی اپنی باتوں اور انتخابی نعروں سے خود کو پنجاب کا خیر خواہ ثابت کرنے کے بجائے عملی اقدامات سے ثابت کریں کہ پنجاب کا دُکھ اُن کا دکھ ہے اور اس کے مداوے کی بھی سبیل کریں۔
بریگیڈیئر کی گرفتاری
جی ایچ کیو میں تعینات بریگیڈیئر علی خان کو کالعدم تنظیم سے تعلق کے شبہ میں حراست میں لے لیا گیا۔ ڈی جی‘ آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ حزب التحریر منفی سرگرمیوں میں ملوث تھی‘ فوج میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ گرفتاری کا ایبٹ آباد اپریشن کے بعد ہونیوالی گرفتاریوں سے تعلق نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حزب التحریر بالکل دوسری تنظیم ہے‘ اسکے القاعدہ اور طالبان سے براہ راست کوئی روابط نہیں۔
حزب التحریر عالمی سطح پر خلافت کے نفاذ کیلئے کوشاں ہے‘ پاکستان میں اس پر مشرف نے اپنی مخالفت کے باعث پابندی لگائی تھی‘ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جس گروپ سے تعلق کے الزام میں بریگیڈیئر علی خان کو حراست میں لیا گیا‘ اسکے امریکی سی آئی اے سے تعلقات ہیں۔ اس گرفتاری پر بریگیڈیئر کی اہلیہ بیگم انجم علی نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انکے شوہر متقی اور پرہیزگار انسان ہیں‘ نماز پڑھنے داڑھی رکھنے اور عقائد میں پختگی کا مطلب انتہا پسند ہونا نہیں‘ ان کا انتہا پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
بریگیڈیئر علی 6 مئی سے زیر حراست ہیں‘ اس دوران فوجی قواعد و ضوابط کے مطابق تحقیقات کی گئی ہو گی۔ فوج کا اپنا احتسابی نظام ہے‘ جس سے بریگیڈیئر علی گزر رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر کے اس تنظیم کے ساتھ رابطے ہوں جو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو قوم کے اندر تجسس پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان کو اس سے آگاہ کیا جائے‘ خصوصی طور پر یہ بھی بتایا جائے کہ جس تنظیم کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط نہیں‘ وہ کس نوعیت کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
صوبہ بلوچستان کا بجٹ
بلوچستان کا ایک کھرب 64 ارب 44 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا، ترقیاتی اخراجات کیلئے 133 ارب جبکہ امن و امان کیلئے 11 ارب 53 کروڑ 90 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
بلوچستان حکومت نے دیگر صوبوں کی طرح مشکل حالات میں اچھا بجٹ پیش کیا گیا، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن اتنا ہی پسماندہ ہے، امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہے، موجودہ بجٹ میں 6 ارب 60 کروڑ روپے خسارہ ہے، لہٰذا صوبائی حکومت کو اپنے وسائل بروئے کار لا کر اس خسارے کو پورا کرنا چاہیے، اسی طرح پسماندگی کو دور کرنے کیلئے تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کیلئے کالجز اور یونیورسٹی بنانی چاہئیں اور غریب طلباءکو پنجاب کی طرح فری تعلیم بھی دینی چاہیے۔
ترقیاتی کاموں کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کئے جانے چاہیے تھے تاکہ بلوچستان کے عوام کے دلوں میںاحساس محرومی کو ختم کیا جا سکے۔ اس طرح امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اس کیلئے پولیس اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے زیادہ فنڈ مختص کرنے چاہئیں تھے تاکہ امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر قابو پایا جا سکے۔ ان کاموں کےلئے بلوچستان کے پاس اگر فنڈز نہیں ہیں تو وفاق سے لیے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی وفاق صوبہ بلوچستان کی گیس کی مد میں ایک خطیر رقم دیتا ہے جس کو ان کاموں پر صرف کیا جا سکتا ہے۔ صوبہ بلوچستان معدنیات ہی نہیں‘ سونے چاندی میں بھی مالا مال ہے‘ اسے نکال کر پاکستان کے ساتھ ساتھ بلوچستان کو بھی خوشحال بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کام پاکستان کو خود کرنا چاہیے اور فوراً۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ صدر زرداری نے سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر انکی قبر کے پاس کھڑے ہو کر ایک جانب تو اپنی مفاہمت کی سیاست کا کریڈٹ لیا اور دوسری جانب اپنے منصب کا بھی خیال نہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے قائد میاں نواز شریف کو انتہائی عامیانہ انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا‘ جو سیاسی محاذ آرائی کی موجودہ فضا میں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس فضا میں جب قومی سیاسی قائدین ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور اپنے گندے کپڑے سرِبازار دھوتے نظر آئینگے تو اس سے جمہوریت‘ قومی سیاست اور اس سے وابستہ سیاسی قائدین کے بارے میں ان حلقوں میں کیا تاثر اور رائے قائم ہو گی جو اپنے غیرجمہوری اقدامات کی خاطرسیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھانے کیلئے پہلے ہی موقع کی تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
آزاد کشمیر کے انتخابات کے سلسلہ میں متعلقہ سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کا ضرور حق حاصل ہے مگر اس مہم کے دوران قومی سیاسی قائدین جس عامیانہ اور جارحانہ انداز میں ایک دوسرے کی ذات پر رکیک حملے کر رہے ہیں اور شائستگی کی تمام حدود عبور کرتے نظر آرہے ہیں‘ اس سے سیاسی افراتفری اور انتشار کی فضا ہی پیدا ہو گی‘ جس کا فائدہ غیرجمہوری عناصر کے علاوہ لازمی طور پر ہمارا وہ مکار دشمن بھی اٹھائے گا‘ جو پہلے ہی ہماری سالمیت کو کمزور بنانے کی سازشی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے اور جنون کی حد تک اپنی جنگی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو بھی اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ انتخابی مہم کے نام پر انہوں نے حکمران پیپلز پارٹی بالخصوص صدر زرداری کے ساتھ محاذ آرائی کی جو فضا بنادی ہے‘ اسکی انتہاءکیا ہو گی اور ملک کی سلامتی کے حوالے سے اسکے کیا نتائج سامنے آئینگے؟ ان دونوں محترم سیاسی قومی قائدین کو ایک دوسرے پر گند اچھالنے کے عمل سے تھوڑا سا وقت نکال کر بھارت نواز مصنف جارج پرکووج کی کتاب ”انڈیا نیو بم“ کا مطالعہ کر لینا چاہیے جس میں بھارت کی عسکری برتری پر تفاخر کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا گیا ہے کہ بھارتی فوج پاکستان کے مقابلہ میں 9 گنا زیادہ جنگی ہتھیار حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے‘ اس مقصد کیلئے بھارت کا حالیہ دفاعی بجٹ 32 ارب امریکی ڈالر تک بڑھا دیا گیا ہے جو ہمارے مجموعی بجٹ کے قریب ہے جبکہ اسکے برعکس پاکستان نے اپنے دفاعی بجٹ کیلئے صرف چار ارب ڈالر مختص کئے ہیں۔ مصنف کے بقول بھارت کا حالیہ جنگی بجٹ پاکستان سے 28 ارب ڈالر زیادہ بنتا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کن خطرناک عزائم پر عمل پیرا ہے۔ اسی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے پاس پاکستان کے 450 جنگی طیاروں کے مقابلے میں 1330 جنگی طیارے ہیں جبکہ پاکستان کے 40 تا 60 ایٹم بموں کے مقابلہ میں بھارت 70سے 100 ایٹم بم رکھتا ہے۔ بھارت نواز مصنف ایک دوسرے کے لتّے لینے والے ہمارے محترم سیاسی قائدین کو یہ بھی باور کرا رہا ہے کہ پاکستان کی سات لاکھ فوج کے مقابلے میں بھارتی آرمی 13 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان کے چھ سو ٹینکوں کے مقابلہ میں بھارت کے پاس ایک ہزار ٹینک ہیں۔ وہ اپنی ان جنگی صلاحیتوں پر ہی اکتفاءنہیں کر رہا‘ بلکہ اس نے جرمنی سے انتہائی بلندی اور منفی درجہ حرارت میں بھی کارکردگی دکھانے والے الٹرا ماڈرن ہیلی کاپٹروں کی خرید کا معاہدہ بھی کرلیا ہے اور وہ یورپی یونین‘ امریکہ اور نیٹو ممالک کے علاوہ روس سے بھی ہر قسم کا مہلک ترین اور جدید اسلحہ خریدنے میں مصروف ہے۔ مصنف نے بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی باور کرایا ہے کہ بھارتی فوج کو الرٹ رہنے کا حکم دےدیا گیا ہے اور اس وقت وہ تیاری کی حالت میں ہے اور اسی تناظر میں بھارت نے سندھ کی سرحد کے ساتھ حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔
یہ سنگین صورتحال باہم دست و گریباں ہمارے محترم قومی سیاسی قائدین کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ بھارت یہ جنگی جنونی تیاریاں اس خطہ میں اپنی طفیلی ریاستوں کیخلاف نہیں‘ صرف پاکستان کیخلاف کر رہا ہے جسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزائم وہ شروع دن سے رکھتا ہے۔ کیا یہ حالات اس امر کے متقاضی نہیں کہ ہمارے قومی سیاسی قائدین اپنے تمام باہمی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے اور اپنی اپنی مفاداتی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی سلامتی کی فکر کریں اور قومی یکجہتی کی فضا ہموار کرکے قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنائیں اور افواج پاکستان کے ساتھ اسکے اعتماد میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کے ماضی کو کھنگال کر ایک دوسرے پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی خاطر ایک دوسرے کو مشتعل کرنیوالے الزامات کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دینگے تو اس سے انہیں کسی قسم کا سیاسی فائدہ تو شاید ہی حاصل ہو پائے‘ مگر ملک کی سلامتی کو ضرور ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اس تناظر میں بالخصوص صدر آصف علی زرداری پر تو بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی پارٹی کے علاوہ ملک اور مملکت کی کمان بھی انکے ہاتھ میں ہے‘ اس لئے اپنی ذات کی حد تک انہیں خود کو سیاست میں ملوث ہی نہیں کرنا چاہیے اور خود کو وفاق کی علامت تسلیم کرانا چاہیے۔ اگر وہ خود بھی نچلی سطح پر آکر عامیانہ لب و لہجے میں اپوزیشن کے قائدین کی جانب کیچڑ اچھالنا شروع کر دینگے تو پھر انکے اجلے لباس پر بھی گند کے چھینٹے ضرور پڑیں گے اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان کو فلور آف دی ہاﺅس پر یہ کہنے کا موقع بھی مل جائیگا کہ کرپشن میں ڈوبے آصف علی زرداری کو ہم صدر تسلیم نہیں کرتے۔
اسی طرح حکومت کی پالیسیوں پر تعمیری تنقید کا اپوزیشن کو حق حاصل ہے مگر اس تنقید کو ذاتیات کی حد تک نہیں لے جانا چاہیے اور ایک دوسرے کیخلاف ایسی الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے جس سے قومی سیاست‘ سیاست دانوں اور جمہوریت کا تمسخر اڑا کر ماضی کی طرح اس کا گلا دبانے کی گنجائش نکلتی ہو۔
اس وقت وفاقی حکومت کو بیرونی جارحیت کے خطرات کے علاوہ گوناںگوں عوامی مسائل اور گڈگورننس کے معاملہ میں بھی بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے عہدہ برا ہونے کے بجائے حکمران پیپلز پارٹی اور اسکے قائدین نے اداروں کے ساتھ ٹکرانے اور قومی سیاست کا مردہ خراب کرنے کی پالیسی جاری رکھی تو اس سے صرف ان کا ہی نقصان نہیں ہوگا‘ جمہوریت اور ملک کی سلامتی بھی داﺅ پر لگ سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمل سے بھی ثابت کریں کہ وہ پنجاب کا درد رکھتے ہیں
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب سے زیادہ پنجاب کا درد رکھتا ہوں۔ وزیر اعلیٰ ملک میں تفریق پیدا نہ کریں۔ پورا پاکستان ہمارا اور پنجاب میرا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کا ہم سے زیادہ کوئی خیر خواہ نہیں۔
وزیر اعظم گیلانی نے جو کچھ کہا اس میں شک و شبہ والی کوئی بات نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حریف جماعت کی حکومت ہے۔ مروجہ سیاست میں حریف کو نیچا دکھانے کےلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مرکز کی طرف بھی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کےلئے پریشانیاں پیدا کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے اسکے باوجود گورنر راج نافذ کردیا تھا کہ یہ خود بھی پنجاب حکومت کا حصہ تھی۔ ہر صوبہ اپنا حق مانگنے کا حق رکھتا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب ایسا کہتے ہیں تو اس کو ملک میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش قرار دینا درست نہیں۔ گیلانی صاحب نے فروری2011ءکے شروع میں اعلان کیا تھا کہ 15مارچ سے گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائےگی۔ 15مارچ کیا جون کا اختتام ہے، سی این جی اسٹیشن ہفتے میں اڑھائی دن بند رہتے ہیں۔ صنعتوں کو گیس کی فراہمی کئی روز معطل رکھی جاتی ہے۔ فیصل آباد جیسے پاکستان کے” مانچسٹر“ میں 16گھنٹے بجلی بند رہے گی توایکسپورٹ کیا ہو گی۔ یہ نقصان صرف پنجاب کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ملک میں گیس کے ذخائر کی کمی ہے نہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کی۔ کچھ پاور پلانٹس تیل کی کمی، کچھ بر وقت عدم ادائیگیوں اور کچھ خرابیوں کی وجہ سے بند پڑے ہیں تو ان کو کس کی بدنیتی قرار دیا جائے؟ وزیر اعظم گیلانی اپنی باتوں اور انتخابی نعروں سے خود کو پنجاب کا خیر خواہ ثابت کرنے کے بجائے عملی اقدامات سے ثابت کریں کہ پنجاب کا دُکھ اُن کا دکھ ہے اور اس کے مداوے کی بھی سبیل کریں۔
بریگیڈیئر کی گرفتاری
جی ایچ کیو میں تعینات بریگیڈیئر علی خان کو کالعدم تنظیم سے تعلق کے شبہ میں حراست میں لے لیا گیا۔ ڈی جی‘ آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ حزب التحریر منفی سرگرمیوں میں ملوث تھی‘ فوج میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ گرفتاری کا ایبٹ آباد اپریشن کے بعد ہونیوالی گرفتاریوں سے تعلق نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حزب التحریر بالکل دوسری تنظیم ہے‘ اسکے القاعدہ اور طالبان سے براہ راست کوئی روابط نہیں۔
حزب التحریر عالمی سطح پر خلافت کے نفاذ کیلئے کوشاں ہے‘ پاکستان میں اس پر مشرف نے اپنی مخالفت کے باعث پابندی لگائی تھی‘ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ جس گروپ سے تعلق کے الزام میں بریگیڈیئر علی خان کو حراست میں لیا گیا‘ اسکے امریکی سی آئی اے سے تعلقات ہیں۔ اس گرفتاری پر بریگیڈیئر کی اہلیہ بیگم انجم علی نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انکے شوہر متقی اور پرہیزگار انسان ہیں‘ نماز پڑھنے داڑھی رکھنے اور عقائد میں پختگی کا مطلب انتہا پسند ہونا نہیں‘ ان کا انتہا پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
بریگیڈیئر علی 6 مئی سے زیر حراست ہیں‘ اس دوران فوجی قواعد و ضوابط کے مطابق تحقیقات کی گئی ہو گی۔ فوج کا اپنا احتسابی نظام ہے‘ جس سے بریگیڈیئر علی گزر رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر کے اس تنظیم کے ساتھ رابطے ہوں جو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو قوم کے اندر تجسس پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ان کو اس سے آگاہ کیا جائے‘ خصوصی طور پر یہ بھی بتایا جائے کہ جس تنظیم کے القاعدہ اور طالبان کے ساتھ روابط نہیں‘ وہ کس نوعیت کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
صوبہ بلوچستان کا بجٹ
بلوچستان کا ایک کھرب 64 ارب 44 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا، ترقیاتی اخراجات کیلئے 133 ارب جبکہ امن و امان کیلئے 11 ارب 53 کروڑ 90 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
بلوچستان حکومت نے دیگر صوبوں کی طرح مشکل حالات میں اچھا بجٹ پیش کیا گیا، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن اتنا ہی پسماندہ ہے، امن و امان کی صورتحال بھی مخدوش ہے، موجودہ بجٹ میں 6 ارب 60 کروڑ روپے خسارہ ہے، لہٰذا صوبائی حکومت کو اپنے وسائل بروئے کار لا کر اس خسارے کو پورا کرنا چاہیے، اسی طرح پسماندگی کو دور کرنے کیلئے تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کیلئے کالجز اور یونیورسٹی بنانی چاہئیں اور غریب طلباءکو پنجاب کی طرح فری تعلیم بھی دینی چاہیے۔
ترقیاتی کاموں کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کئے جانے چاہیے تھے تاکہ بلوچستان کے عوام کے دلوں میںاحساس محرومی کو ختم کیا جا سکے۔ اس طرح امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اس کیلئے پولیس اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے زیادہ فنڈ مختص کرنے چاہئیں تھے تاکہ امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر قابو پایا جا سکے۔ ان کاموں کےلئے بلوچستان کے پاس اگر فنڈز نہیں ہیں تو وفاق سے لیے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی وفاق صوبہ بلوچستان کی گیس کی مد میں ایک خطیر رقم دیتا ہے جس کو ان کاموں پر صرف کیا جا سکتا ہے۔ صوبہ بلوچستان معدنیات ہی نہیں‘ سونے چاندی میں بھی مالا مال ہے‘ اسے نکال کر پاکستان کے ساتھ ساتھ بلوچستان کو بھی خوشحال بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کام پاکستان کو خود کرنا چاہیے اور فوراً۔