جمعرات‘ یکم ذوالحج 1441 ھ‘ 23؍جولائی 2020ء
دو بڑی اپوزیشن جماعتوں نے حکمرانوں کے اقتدار کو طول بخشا: مولانا فضل الرحمن
مولانا صاحب کے دل کا چھپا درد بالآخر ان کی زباں پر آ ہی گیا۔ مولانا بھی انسان ہیں آخر کب تک چپ رہتے۔ اب انہوں نے جو کچھ کہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہے، یوں وہ اب ایسے بولے اور واقعی کھل کر بولے کہ …؎
ؔلبوں پہ درد بھری داستاں چلی آئی
بہار آنے سے پہلے خزاں چلی آئی
سچ بھی شاید یہی ہے۔ سیاسی ماحول دیکھ کر بھی کچھ کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ نجانے کیوں مصلحت کی سیاست کا اثر ہے یا کچھ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے اور ابھی تک وہ میدان میں نکلنے سے گریزاں ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن ہمہ وقت سر پہ کفن باندھے میدان میں نکلنے کو تیار ہیں۔ مگر انہیں سندھ اور پنجاب میں جس افرادی قوت کی ضرورت ہے جب وہ اس طرف نظر ڈالتے ہیں انہیں میدان خالی نظر آتا ہے۔ یوں وہ دل شکستہ ہو جاتے ہیں، یوںیہ صورتحال حکومت کے لئے باعث اطمینان بن جاتی ہے۔ حکمرانوں کو اپوزیشن کی اس صورتحال کی وجہ سے ان کی بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس سے بھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا۔ حکمرانوں کی یہی بے نیازی مولانا پر گراں گزر رہی ہے اور وہ اپنی تلخ نوائی سے ان کو متحد ہونے کے لئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے بیدار کر رہے ہیں۔ مگر فی الحال ستارے حکومت کے حق میں نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں لیاری گینگ وار کے کارندے پھر بھتہ کی پرچیاں بھیجنے لگے
کیا مقامی انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت سندھ کی کراچی پر گرفت پھر کمزور پڑنے لگی ہے کہ بھتہ مافیا ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ یاد رہے سانپ کا سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دینا ضروری ہے۔ کراچی بہت عرصہ ایسے مافیاز کا عذاب سہہ چکا ہے۔ یہ لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ ذرا سی ڈھیل ایک بہت بڑے سانحے کو عذاب کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لئے پرچی بھیجنے والوں کو جواب میں گولی اور پھانسی کا پھندا بھیجا جائے تاکہ انہیںپتہ چل سکے کہ اب وہ زمانے گئے جب خالو خلیل فاختائیں اُڑایا کرتے تھے۔ خدا خدا کر کے کراچی میں زندگی کی رونقیں بحال ہوئی ہیں ۔ کاروباری گہما گہمی نظر آنے لگی ہے ، لوگ بے خوف ہو کر کام کاج میں مصروف ہیں۔ مسئلہ ہے تو سٹریٹ کرائم کا ہے۔ محسوس ہوتا ہے سٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھ کر ہی ان بھتہ مافیاز کو شہہ ملی ہے۔ ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ انہوںنے پھر پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اُڑنے سے پہلے ہی ان کے پر کتر دئیے جائیں۔ جس طرح ٹڈی کا خاتمہ سپرے سے ہوتا ہے اسی طرح ان مافیاز کا خاتمہ بھی سخت آپریشن سے ممکن ہے۔ وفاقی ادارے ہوں یا صوبائی انتظامیہ‘ سب کو متحرک ہو کر اس ٹڈی دل کے خلاف کام کرنا ہو گا خاص طور پر ان کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالنا اور انہیں نکیل ڈالنا ہو گی۔
٭٭٭٭
شام میں اسرائیلی اور امریکی طیاروں کی حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری ، ایک اور ایرانی جنرل ہلاک
پہلے بغداد اور اب دمشق میں ایک بارپھر عالمی امن تباہ کرنے کی کوشش سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل کو کوئی بھی خوف نہیں۔ یہ دونوں جہاں چاہیں غنڈہ گردی کرتے پھریں کوئی ان کا ہاتھ روک نہیں سکتا۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے ان ممالک کی دنیا بھر میں مذمت کی جاتی ہے۔ مٹی پلید کی جاتی ہے مگر کیا مجال ہے کہ ان پراثر ہوتا ہو۔ لگتا ہے یہ دونوں ایسی بے عزتی کے عادی ہو چکے ہیں۔ دوسرے ممالک کے معاملات میںٹانگ اُڑانا ان کی عادت بن چکی ہے۔ امریکہ کے پہلے ہی ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ جنرل قاسم کی ہلاکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اب ایک اور جنرل کی ہلاکت اس آگ پر مزید پٹرول چھڑکے گی۔ یوں ایران تا شام بدامنی اور جنگ کے شعلوں کو ہوا ملے گی۔ اس سے خود امریکہ اور اسرائیل کو کچھ نہیں ہو گا مگر شام میں جہاں پہلے ہی خانہ جنگی کا دیو منہ کھولے شامی مسلمانوں کو چبا رہا ہے نگل رہا ہے۔ مزید خون آشام ہو جائے گا۔۔ فہم و فراست اور تدبر کی ہمارے حکمرانوں میں پہلے ہی کمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنے اپنے ملک کو جنگ کا ایندھن بنانے کی بجائے امن کا گہوارہ بناتے ۔ مگر انہیں بھی بدامنی راس آتی ہے۔ شاید یہ سب جان بوجھ کر غیر ملکی طاقتوں کے مہرے بنے ہوئے ہیں لیکن کب تک ایسے حکمران رہیں گے۔ کبھی نہ کبھی کہیں
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
٭٭٭٭٭
بیوی نے بچوں کے ساتھ مل کر شوہرکو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا
یہاں تو سوسنار دی تے اک لوہار دی والا محاورہ الٹا ہو گیا۔ سو سناروں نے مل کر ایک لوہار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بال بچے دار حضرات کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ کہیں اس کے بچے اپنی ماں کے ساتھ مل کر یکدم حملہ آور ہو گئے تو پھر ڈنڈے اور سوٹے چلنے کی صورت میں اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ …؎
جان دی‘ دی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
بھی نہ کہہ پائیں گے۔ گھریلو لڑائی جھگڑوں میں تشددکا عنصر شامل ہونا خاصہ خطرناک ہو گیا ہے۔ معاملہ گالی گلوچ اور توتو میں میں تک ہی رہے تو بہتر ہے ورنہ پہلے کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں شوہروں ان کے بھائیوں اور ماں باپ کے ہاتھ مرنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ملتی ہے مگر کئی مقامات پر خواتین کے ہاتھوں مرنے والے شوہروں کی قلیل تعداد بھی سامنے آتی ہے۔ اب جدید دور میں یہ تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر آشنا کے ساتھ مل کر یا بچوں کے ساتھ مل کئے جانے والے کر ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے۔ اب ہتھ چھٹ قسم کے مردانگی کے زعم میںمبتلا حضرات محتاط ہو جائیںورنہ کہیں بیوی سے مار پیٹ کے بعد انہیں بھی چار کندھوں پر نہ اٹھانا پڑ جائے۔ خدا ایسے وقت سے سب کو محفوظ رکھے اور ایسی خون آشام خواتین کو عقل دے جو اپنے مجازی خدا کے درپے ہو جاتی ہیں…