دھوکہ دینے والوں مقدس پیشے میں کوئی جگہ نہیں : چیف جسٹس
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زیرالتواء مقدمات نمٹانے کیلئے ماڈل کورٹ اچھا اقدام ہے۔ وکلاء کا پیشہ پیسہ بنانے کیلئے نہیں ہے۔ نئے وکلاء کیلئے بھی ٹریننگ بہت ضروری ہے۔ عدلیہ اور طب کے شعبے بہت مقدس ہیں۔ وکلاء کی ایسی تربیت ہونی چاہئے کہ وہ دنیا میں کسی کا بھی مقابلہ کر سکیں۔ دھوکہ دینے والوں کیلئے عدلیہ اور طب کے شعبوں میں کوئی جگہ نہیں۔ محنت سے کام کرنا کامیابی کی کنجی ہے۔ ہمارے وکلاء بہت ذہین ہیں لیکن ان کو ڈائریکشن چاہئے۔ وکیل لوگوں اور معاشرے کیلئے لڑتا ہے۔ اس سے زیادہ مقدس کام اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سسٹم میں تربیت کا فقدان تھا۔ برطانیہ میں لاء گریجویٹ کو تربیت دے کر وکیل بنایا جاتا ہے۔ انسانیت کی مدد کریں دولت کے پیچھے مت بھاگیں۔ عدالت میں جج کی بجائے وکیل زیادہ علم رکھتا ہے۔ وکلاء ہی ججز کی معاونت کرتے ہیں۔ اپنے کلائنٹ سے مخلص رہیں۔ ہماری ٹریننگ میں وکیل کو پتلون میں ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعض اوقات جج آپ کی بات سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔ جج سو جائے تو یہ مت کہیں کہ جج صاحب آپ سو گئے ہیں۔ جج سو جائے تو روسٹرم پر کتاب ہلکی آواز میں رکھیں جس سے جج جاگ جائے۔ ہمیں عدلیہ کی عزت کا کلچر واپس لانا پڑے گا۔ عدالت میں تقریری مقابلہ نہیں ہونا چاہئے۔ مؤثر دلائل سے کیس جیتا جاتا ہے۔ کوئی وکیل جج کو یا جج وکیل کو کرسی مار دے تو دیکھیں کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ کسی ایک شخص کے فعل سے پورے شعبے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ سینئر وکلاء نے جونیئرز پر توجہ دینی بند کر دی ہے جو اپنے بڑوں سے عزت سیکھی وہ ہمیں جونیئر وکلاء کو سکھانی ہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد تحریک بحالی عزت وکلاء کی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک وکیل کا نہیں بلکہ ہم سب کا معاملہ ہے۔ وکیل بحث ذہن اور دماغ سے کریں ہاتھوں سے نہیں۔ جب کوئی جج سوال کرتا ہے تو وکیل کیلئے اسے سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔ عدالت میں جب بھی جج کوئی سوال کرے تو آپ کو خوشی ہونی چاہئے۔ جج سوال پوچھتا ہے تو وکیل کو جج کا دماغ سمجھ لینا چاہئے۔ جج کے سوال پوچھنے سے وکیل کیلئے کھڑکی کھل جاتی ہے۔ وکیل کوشش کرے کہ جج کے سوال پر زیادہ جواب دینے کی کوشش کرے۔ ایک جج کو جھٹلائے بغیر بڑے ادب سے آپ دوسری طرح سے بھی سمجھا سکتے ہیں۔