وزیر اعظم عمران خان کے امریکی دورے سے وابستہ توقعات یہ انتہائی غیر معمولی حالات میںکسی پاکستانی وزیر اعظم کا غیر معمولی دورہ ہے، پاکستان معیشت کی بحالی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ لا تعدادنئی جنگیں ملک کی سرحدوں پر منڈلا رہی ہیں۔ امریکی افواج افغانستان کے بعد سعودی عرب میں ڈیرے ڈالنے والی ہیں اور اس کے بحری بیڑے سمندروں میں پہلے ہی سے لنگر انداز ہیں اور ایران ان کا نیانشانہ ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کا فعال اور سرگرم پارٹنر ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپ کو یہ منصوبے قابل قبول نہیں ہیں اور وہ اپنی تجارتی برتری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ علاقے میں بھارت اپنے آپ کو مہا بھارت کے مرتبے پر لانا چاہتا ہے۔ وہ ایک منی سپر پاور کے طور پراپنے ارد گرد کے جغرافیے پر کنٹرول مسلط کرنے کے لئے کوشاں ہے۔
مگر پاکستان ایک ایٹمی اور میزائلوں سے مسلح طاقت ہے۔ وہ کسی کے دبائو میں کیوں آئے گا۔ تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ جب کبھی پاکستان نے علاقے میں فعال کردار ادا کیا تو سوویت روس جیسی دنیا کی دوسری سپر طاقت ڈھیر ہو گئی اور آگے چل کر دنیا کو دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہوا تو امریکی اور اتحادی افواج اس خطرے کے سد باب میںناکام ہو گئیں مگر پاکستان نے دہشت گردوں کو اپنے فولادی پٹھے دکھائے تو نہ صرف یہ کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا بلکہ دنیا بھر کے اربوں عوام چین کی نیند سوتے ہیں۔
اب ایک نیا موڑ ہے۔ نئے چیلنج ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں راسخ ہو چکی ہیں اور ملک کی دفاعی طاقت ناقابل تسخیر بن چکی ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان عالمی برادری میں ایک ممتاز مقام مانگتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ یہ فیصلہ کرے گا کہ دنیا کی واحد سپر طاقت امریکہ کی طرف سے کس رد عمل کاا ظہار کیا جاتا ہے ، امریکہ ایک قدم آگے بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم آگے جانے کو تیار ہو گا اور اگر پاکستان کو چیلنج کیا گیا تو پاکستان ہمیشہ کی طرح لوہے کا چنا ثابت ہو گا۔ وہ گھاس کھائے گا۔ پیٹ پر پتھر باندھے گا اور ہر چیلنج کے سامنے ثابت قدم رہے گا۔یہ ہے وہ پیغام جو عمران خان نے امریکہ کو دینا ہے اور ان کے ساتھ آرمی چیف اورا ٓئی ایس ا ٓئی چیف بھی ہیں جو امریکی پینٹاگان کو اور شاہ محمود قریشی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو قائل کریں گے کہ ایک آزاد ۔ غیر جانبدار اور باوقار پاکستان دنیا کے لئے امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
اب میں تھوڑی سی تفصیلات میںجائوں گا۔ یہ فیصلہ ہونا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد نیا سسٹم کیا ہو گا۔ اس کے لیے امریکہ کوطالبان سے مذاکرات کرنے ہیں اور اس عمل میں پاکستان واحد ملک ہے جو امریکہ کی مدد کر رہا ہے۔ اور امریکہ بھی جانتا ہے کہ یہ عمل پاکستان کی معاونت کے نتیجہ خیز نہیں بنایا جا سکتا۔ اب امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی نمائندہ حکومت کو کھل کر بتانا ہو گا کہ وہ پاکستان کے اس تعاون کے بدلے کیا دیں گے، یعنی کوئڈ پرو کو کیا ہو گا۔ پاکستان کو افغان جنگ اور دہشت گردی کی جنگ میں منہ مانگی امداد دی گئی ۔ امریکی صدر نے جنرل ضیا کو جو ابتدائی مدد کی پیش کش کی تھی۔ اسے جنرل ضیا نے مونگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا۔ پاکستان نے سوویت روس کا تن تنہا مقابلہ کیا تو امریکہ مجبور ہو گیا کہ پاکستان کو منہ مانگی امداد دے۔ اسی طرح دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی افواج کے سات ہزار افسرا ور جوان شہید ہوئے۔عام پاکستانیوں میں سے ستر ہزار شہید ہوئے۔ ملک کی معیشت کا جنازہ نکل گیا ۔ امریکہ ا ور دنیا نے پاکستان کی وہ امداد نہیں کی جو اس کا حق بنتاتھا۔ اب وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں امریکہ کو جواب دینا ہے کہ مستقبل میں پاکستان سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ اسی جواب کی بنیاد پر آئندہ کے دو طرفہ تعلقات استوار ہوں گے۔ عمران خان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اندر جا کر کچھ کہیں گے اور باہر جا کر کچھ اور کہیں گے ۔ وہ ایک کھرے لیڈر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکی قیادت ان کی باتوں پر کہاں تک دھیان دیتی ہے۔پاکستان نے اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں کوئی ابہام نہیں رکھا۔ وہ مکمل غیر جانبدار ریاست ہے۔ نہ یمن میں ، نہ شام میں اور نہ ایران کے قضئے میں پڑاا ور نہ اس نے کبھی پڑوسی افغانستان میں کبھی مداخلت کی۔ بھارت واویلا ضرو ر کرتا ہے کہ پاکستان اس کے اندر مداخلت کرتا ہے مگر بھارت چھبیس اور ستائیس فروری کو خود دہشت گرد اور مداخلت کار ثابت ہو گیا ۔اس کا ایک ونگ کمانڈر ابھی نندن پاکستان کی حدود سے جنگی قیدی بناا ور انڈین نیوی کا کمانڈر کل بھوشن بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کے جرائم میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکا تھا۔ا س کی بریت کے لئے عالمی عدالت انصاف میں بھارتی اپیل کو ٹھکرا دیا گیا ہے۔پاکستان اپنا یہی کردار ادا کرتا رہے گا، اور کسی دوسرے ملک میں مداخلت سے گریز کی پالیسی پر کاربند رہے گا۔ امریکی انتظامیہ کو یہ پیغام لائوڈ اینڈ کلیئر مل چکا ہے۔ظاہر ہے امریکہ کے اپنے مطالبات ہوں گے۔ وہ دبائوبھی ڈالے گا اور نرم خوئی سے بھی کام لینے کی کوشش کرے گا۔ یہ اس کی روائتی اسٹک اینڈ کیرٹ پالیسی ہے۔ وہ اپنے اہداف کے حصول میں ہر حد پار کرنے کی کوشش کرے گا مگر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان جو کرکٹ کی ایک طویل اننگز کھیل چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس گیند پر کھیلنا ہے اور کس بلے باز پر کیسا گیند پھنکنا ہے۔
ایک بھونڈا اعتراض کہ منتخب وزیر اعظم عمر ان خاںکے ساتھ آرمی چیف کیوں۔آرمی چیف پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کی معاونت کے لئے دورے پر نہیں جا رہے۔ یہ ایک پرانی روائت ہے۔ہمیشہ کی روایت ہے اور دوسرے ممالک کے حکمران بھی نازک اور حساس مذاکرات کے لئے جاتے ہیں تو دفاعی ماہرین ساتھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں آنے والے امریکی جرنیلوں کی لسٹ پر ایک نظر ڈال لیں اور اپنے بھونڈے اعتراض پر شرمندگی کا اظہار کریں۔ عمران کے ساتھ صدر ٹرمپ جو دفاعی نزاکتوں کی فہرست رکھیں گے۔ ان کا جواب آخر کوئی دفاعی ماہر ہی دے سکتا ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ یہی کردار احسن طریقے سے ادا کریں گے۔
اور ایک آخری توقع جو پاکستانی عوام ہی نہیں ۔ خود پاکستان نے اپنے وزیرا عظم کے دورے سے وابستہ کرر کھی ہے ، وہ یہ کہ ایک تو عمران خان پرچیاں لکھ کر اور ان کو دیکھ کر بات نہیں کریں گے بلکہ اپنے ذہن کو بروئے کار لائیں گے اور ترکی بہ ترکی سوال جواب کریں گے اور عمران خان نے واشنگٹن کے عوامی جلسے میں واضح یقین دہانی کر ادی ہے کہ وہ کسی کے سامنے نہ جھکے ہیں ۔ نہ جھکیں گے۔ وہ پاکستان کو کسی کے سامنے نہیں جھکنے دیں گے۔
یہ پہلا دورہ ہے جس میںوزیر اعظم نے عام کمرشل فلائٹ پکڑی ہے اور وہ امریکہ کے پاکستان ہائوس میں مقیم ہوئے ۔اس سے بڑھ کر ان سے کیا توقع کی جاتی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024