وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر مخصوص حلقوں کی طرف سے افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اعلی عسکری قیادت کو وزیراعظم کے ساتھ کیوں جانا پڑا، عسکری قیادت کی موجودگی کیوں ضروری تھی، سیاسی حکومت کے ہوتے ہوئے فوجی قیادت واشنگٹن کیوں گئی، کیا فیصلے کوئی اور کر رہا ہے، کیا فیصلے کہیں اور سے آ رہے ہیں، کیا طاقت کا مرکز کوئی اور ہے۔ یہ گفتگو کرنے والے اور ان کے حمایتی مخصوص سیاسی سوچ کے حامل ہیں، سیاسی شکست خوردہ ہیں اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ وہ مخصوص طبقہ ہے جسے اپنے اقتدارِ کے علاوہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے، اقتدار چھن جانے کے غم میں اب ہر وقت اداروں کو ہدف بنا کر معصوم اور سادہ لوح عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے پر زور لگا رہے ہیں۔
جہاں تک تعلق اس بات کا ہے کہ فوجی قیادت کیوں ساتھ ہے۔ یہ سوال اٹھانے والے ذرا خطے کی صورتحال پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے کل ہی پاکستان ایران بارڈر پر جھڑپ میں ہلاکتیں ہوئی ہیں، بھارت براہ راست اور بذریعہ افغانستان کیا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔ کیا کلبھوشن جادھو کے بعد کوئی شک باقی رہتا ہے۔ خلیج میں کیا ہو رہا ہے، امریکہ اور ایران میں کشیدگی حد تک بڑھ چکی ہے۔ امریکہ، روس اور چین تین بڑی عالمی طاقتوں کے اہداف کیا ہیں اور یہ تینوں بڑی طاقتیں کس صف بندی میں مصروف ہیں۔ مشرق وسطی میں جنگ ہے، سعودی عرب میں امریکی فوج تعینات ہو چکی ہے، چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے نے امریکہ کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے پھر فائیو جی کا آغاز بھی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے، پاکستان سی پیک میں شامل ایک اہم ملک ہے، پاکستان روس کے ساتھ فوجی مشقیں بھی کر چکا ہے تو روس بھی خطے میں مسلسل اپنی طاقت بڑھا رہا ہے۔ ان حالات میں عسکری قیادت کا وزیراعظم کے ساتھ جانا اور پینٹاگون سے براہ راست بات چیت ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے۔ عسکری قیادت کی ملاقاتیں عسکری اداروں سے ہی ہیں اور دنیا بھر میں یہی طریقہ اور اصول ہے۔ ملکوں کی حفاظت کے معاملات میں عسکری قیادت ہی بات چیت کرتی ہے۔ افواج پاکستان کی اعلی قیادت کی امریکہ میں موجودگی پر سوالات اٹھانے والے شاید خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال سے ناواقف ہیں شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پاکستان بیک وقت تین بڑی عالمی طاقتوں امریکہ، روس اور چین کے ساتھ برابری کی سطح پر اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بات چیت کر رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کسی ایک طرف جھکنے کے بجائے سب کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ چونکہ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے اس لیے نہایت مشکل اور حساس کام بھی ہے۔ پاکستان مشکل دور سے گذر رہا ہے بلکہ پل صراط پر چل رہا ہے کیونکہ ماضی میں صرف ایک طرف جھکاؤ ہونے کی وجہ سے ہم دنیا سے کٹ جاتے تھے اس مرتبہ روس اور چین کو بھی ساتھ ساتھ چلانے کی حکمت عملی پر کام ہو رہا ہے اگر یہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی ماضی میں بھی اختیار کی جاتی تو آج پاکستان خطے میں مضبوط معیشت کے ساتھ سب سے طاقتور ملک ہوتا لیکن ماضی کے حکمرانوں نے وقتی فائدے کے لیے طویل المدتی پالیسی پر کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں آج ہم بدترین معاشی دور سے گذر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی اعلی فوجی قیادت کی امریکہ میں موجودگی پاکستان اور وقت کی ضرورت ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بہترین انداز میں پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے اور ملک کی سرحدوں کو محفوظ اور مضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خاکی وردی والوں کے لیے محفوظ پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، ان کے لیے مضبوط پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
قارئین کرام جہاں تک تعلق ملک کی سیاسی قیادت کا ہے تو وزیراعظم عمران خان نے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے عزم کو دہرایا ہے۔ لوگوں کا بڑی تعداد میں تقریر سننے کے لیے آنا پاکستان اور عمران خان سے محبت کی نشانی ہے۔ وطن سے محبت کے اسی جذبے سے سر شار پاکستانیوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے عمران خان کو ایوان وزیراعظم تک پہنچایا ہے اور اب بیرون ملک بسنے والے پاکستانی بھی اپنے ملک کو دیرینہ مسائل سے نکالنے کے لیے سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ عمران خان امریکہ میں تقریر کر رہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مینار پاکستان میں اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں۔ سیاسی قیادت نے واضح الفاظ میں اپنا وژن امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کے سامنے رکھا۔ وزیراعظم عمران خان کے جوش و جذبے اور عزم پر کوئی شک نہیں ہے لیکن اب وقت آن پہنچا ہے کہ انہیں کرپشن، رشوت، لوٹ مار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی عملی اقدامات کرنا ہونگے۔چوروں کو لٹکائیں، لٹیروں کو سزا دیں، کرپشن کرنے والوں سے پیسہ واپس لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے انہیں کھانے پینے کی چیزوں کی آسان قیمتوں پر فراہمی اور زندگی کو آسان بنانا انتہائی ضروری ہے۔ جتنی شدت اور قوت کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لیے کام ہو رہا ہے اتنی طاقت عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی طرف بھی لگانا ہو گی۔
قارئین کرام!ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کا متحد ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں، سیاست دان ایمانداری سے اپنا کام کریں اور افواج پاکستان سرحدوں پر ذمہ داریاں نبھاتی رہے تو ملک سے کرپشن، سمگلنگ، لوٹ مار بھی ختم ہو گی اور معاشی آسودگی بھی حاصل ہو جائے گی۔ جنہیں دونوں کا ایک موقف کے ساتھ آگے بڑھنا گراں گزرتا ہے وہ اپنے سیاسی بزرگوں سے ضرور پوچھیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں یہ موقع ضائع کیوں کیا اور ملک کی خدمت کے بجائے خاندان کی خدمت میں کیوں لگے رہے؟؟؟؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024