تحریک عدم اعتماد ۔ آئینی تقاضے بہرصورت ملحوظ خاطر رہیں
اپوزیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی ریکوزیشن پر سینٹ کے اجلاس میں چیئرمین سینٹ کے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو زیر بحث لانے سے انکار پر آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ موجودہ چیئرمین سینٹ آج 23جولائی کو منعقد ہونیوالے اجلاس کی صدارت کریں۔چیئرمین سینٹ کی جانب سے چند لمحے تک اجلاس جاری رہنے کے بعد غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنے کا امکان ہے۔
صادق سنجرانی کے بطور چیئرمین سینٹ آئینی اور قانونی امور کے حوالے سے کسی بھی سمت سے کبھی تحفظات سامنے نہیں آئے۔ انکی طرف سے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کو احترام دیا جاتا رہا۔ ان کو پیپلزپارٹی کی قیادت نے تحریک انصاف سے مل کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نیچا دکھانے کیلئے چیئرمین سینٹ منتخب کیا۔ اس وقت اس جوڑ توڑ پر غیرجانبدار حلقوں کی طرف سے شدید تنقید ہوئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی سینٹ میں جبری اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا گیا۔ اسے سنجیدہ حلقے غلط قرار دیتے تھے‘ اب اسی طرح کی غلطی کا پھر ارتکاب کیا جارہا ہے جس سے سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس سب کے باوجود چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئینی اور قانونی عمل ہے۔ اپوزیشن کے پاس بادی النظر میں نمبر پورے ہیں۔ تاہم صادق سنجرانی حکومت کے ایماء پر اکثریت کے دعویدار ہیں۔ اس طرح کی اکثریت کیلئے ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا‘ اسے قابل رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے بہرصورت آئینی تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ صادق سنجرانی کو اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں تو باعزت حل کی طرف جائیں۔ اپوزیشن کو خفیہ بیلٹ میں اپنے لوگوں سے بے وفائی کا اندیشہ ہے تو وہ بھی تحریک عدم اعتماد کو آزمائش بنانے سے گریز کرے۔