سابق وزیر داخلہ پیپلز پارٹی کے رہنما دانشور اور سینیٹر رحمن ملک نے حال ہی میں انگریزی میں تحقیقی کتاب ’’داعش ، آئی ایس آئی ایس رائزنگ مونسٹر‘ ورلڈ وائڈ‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ کتاب میں اس خون آشام انسانیت دشمن اور اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے داعش نامی تنظیم کو بے نقاب کیا ہے۔ داعش یعنی عالمی خونی عفریت سے روشناس کرانے کا سہرا رحمن ملک کو جاتا ہے۔ وہ پہلی ذمہ دار شخصیت ہیں جنہوں نے برسوں پہلے عالم اسلام اور دُنیا کو داعش کے خطرے سے آگاہ کر دیا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ داعش ، طالبان اور القاعدہ سے بھی زیادہ خون آشام اور خطرناک ہے اور اُنہوں نے دُنیا کو یہی بتانے کے لیے یہی کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ اس میں راشٹریہ سیوک سنگھ اور داعش کے باہمی تعاون اور گٹھ جوڑ کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ کتاب سے صرف عام آدمی ہی نہیں بلکہ اس انسانیت دشمن عفریت کے سدباب کے لیے اقوام متحد ہ کو مربوط لائحہ عمل طے کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محترم رحمن ملک پہلے دانشور تھے جنہوں نے طالبان کو ظالمان لکھا تھا۔
داعش طالبان سے بھی بدترین ہے جو داعش ازم کے نام سے ایسے نظریات کو پھیلا رہی ہے جو سراسر خلاف اسلام ہیں، جب میں وزیر داخلہ تھا۔ میں نے بڑے قریب سے ان کے حقیقی دہشت گردانہ مقاصد کا مطالبہ کیا، میرے لیے یہ انکشاف تھا کہ دہشت گرد تنظیموں کے مقاصد اور طریق کار ایک ہیں۔ میں نے بڑی باریک بینی سے القاعدہ اور داعش کے عروج کا مطالعہ کیا داعش کا ظہور حُسنی مبارک کے زوال سے شروع ہوا۔ پھر اسے ’’عرب بہار‘‘ اور لیبیا اور شام کی جنگوں سے تائید ملی اور بھی کئی واقعات ہیں، دریں اثنا داعش نے اپنی مذموم سرگرمیوں کا دائرہ کار دُنیا تک پھیلا دیا۔ میں نے اس کی سرگرمیوں کا تعاقب جاری رکھا، ڈسکہ اور سیالکوٹ کے علاقے میں اس کی موجودگی کو ڈھونڈ نکالا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب اور آخر میں اسلام آباد کے قریب کلر سیداں میں بھی اس کا سراغ ملا۔ تب عمر خالد خراسانی نامی ایک شخص علاقے میں داعش کا نمائندہ ہونے کا مدعی تھا، ان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے مجھے زیر نظر کتاب لکھنے پر مجبور کیا، جس کی تقریب رونمائی /17 جولائی 2019ء کو ہوئی اور جس کی خبر نوائے وقت نے صفحہ اول پر جلی سرخیوں سے دی اور خبر کی اہمیت کے پیش نظر جامع شذرہ بھی لکھا۔ میں نے یہ ساری محنت اور اس خون آلام عفریت جس کا نام داعش ہے بے نقاب کرنے کے لیے کی۔ میں ایسی خوفناک تنظیم کو بے نقاب کرنے پر متوقع نتائج و عواقب سے بھی آگاہ ہوں۔ لیکن میں نے عام آدمی کے مفادات اور بین الاقوامی امن کی خاطر اس حادثے کے خطرے کو بالائے طاق رکھ دیا۔
2014ء کے وسط کی بات ہے تب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی میں نے حکومت کو داعش کے خطرے سے متنبہ کر دیا تھا۔ حکومت کو مشورہ د یا کہ اگر وہ داعش سے اسی طرح چشم پوشی کرتی رہی تو یہ دوسری القاعدہ بن جائے گی اور پھر ان دہشت گردی کی دہشت گردی کو بھگتنا پڑے گا۔ میرے مسلسل اصرار کے باوجود انکار کی رٹ لگائی رکھی۔ اس کے باوجود میں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
بعد کے واقعات اور داعش کی وارداتوں نے میرے خدشات کو درست ثابت کر د یا۔ تاہم ہماری ایجنسیوں نے ان سے نبٹنے اور افغان سرحد کی طر فسے داخلے کو روکنے کی کوششوں کو حق ادا کر دیا۔ حکومت داعش کی پاکستان کی موجودگی کا انتظار کر رہی تھی مگر 2016ء میں کوئٹہ میں دو دہشت گردانہ حملے ہوئے ایک حملے میں ستر شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ دوسرا حملہ پولیس کیڈٹ ٹریننگ سنٹر پر ہوا جس میں 61 کیڈٹ شہید اور 160 زخمی ہوئے۔ 2017ء میں سیہون شریف کے مزار کے احاطے میں دہشت گردی کی واردات میں ایک سو سے زائد زائرین جان بحق ہوئے۔ مئی 2015ء میں کراچی میں بس پر حملے میں 46 افراد جاں بحق ہوئے ، یہ پہلا حملہ تھا جس کی باضابطہ طور پر ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ مئی 2017ء میں سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری داعش حملے میں شہید ہوئے، داعش نے اگست 2017ء میں کوئٹہ میں خودکش دھماکے میں آٹھ فوجیوں سمیت پندرہ افراد شہید کر د ئیے۔ جولائی 2018ء میں داعش نے پاکستان میں مہلک ترین حملہ کیا جس میں مستونگ میں محب وطن پاکستانی سراج رئیسانی سمیت 128 افراد شہید ہوئے۔ جولائی 2018 ء میں ہی کوئٹہ کے شمالی بائی پاس پر ایک پولنگ سٹیشن کے باہر داعش نے بم دھماکہ کر کے 31 افراد شہید اور 35 زخمی کر دئیی۔
پاکستان میں ان حملوں کے علاوہ داعش نے دُنیا بھر میں 139 دہشت گردانہ حملے کئے ہیں جن کی تفصیل کتاب میں د یکھی جا سکتی ہے۔ کتاب میں داعش کے بعض لیڈروں کے بیانات کے اقتباسات دئیے گئے۔ داعش کا بانی اور امیر ابوبکر البغدادی کہتا ہے کہ’’ ہمارے دشمنوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے خلاف جہاد تا روز قیامت جاری رہے گا‘‘ تقریباً یہ اور اس قسم کے سارے بیان داعش کا جسے آئی ایس آئی ایس بھی کہتے ہیں بیانیہ یا پالیسی ہے۔ مصنف نے کتاب میں تفصیل سے بتایا ہے کہ داعش ، القاعدہ اور طالبات سے بھی کہیں زیادہ خون خوار ہے۔ داعش چین کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ میں کئی عراقیوں اور لیبیا کے لوگوں سے اس مسئلہ پر ملا ہوں ان میں سے ایک لیبیا کے سابق وزیر داخلہ بھی تھے سب متفق تھے کہ داعش لیبیا سمیت دُنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہے۔
داعش کو وہ تمام طالب علم کنٹرول کر رہے ہیں جنہوں نے خوست افغانستان میں تعلیم پائی ، ان میں ابوبکر البغدادی ، مصعب الزرقاوی حتیٰ کہ القاعدہ کے سابق ارکان یہاں تک کہ اُسامہ بن لادن بھی جس نے زرقاوی کو القاعدہ کا یوتھ لیڈر مقرر کیا۔ سری لنکا کے دھماکوں ا ور داعش کے درمیان تعلقات اور پھر داعش کے ان لوگوں کی بھارت میں تربیت چونکا دینے والی بات ہے۔ جن دہشت گردوں کی شناخت ہوئی ہے، اُن سب نے سری لنکا دھماکوں کے لیے بھارتی سرزمین استعمال کی۔ بھارت کی نہ صرف داعش کے مددگار کی حیثیت سے شناخت ہوئی بلکہ بھارت سری لنکا کے 21 اپریل 2019ء کے سنڈ ے ایسٹر کے حملوں میں پوری طرح ملوث تھا۔ ان حملوں میں 259 افراد ہلاک ہوئے جن میں 45 غیر ملکی سیاح تھے، بھارت کے ملوث ہونے کی شہادتیں ناقابل تردید ہیں۔ بدقسمتی ہے داعش‘ القاعد ہ اور طالبان کے دہشت گرد معصوم جانوں کا خون بہانے کے لیے حملہ کرتے وقت اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو شہید ہو رہا ہوتا ہے وہ بھی اللہ اکبر ہی کہتا ہے۔ جناب رحمن ملک نے اس عفریت کی بڑھتی ہوئی چہرہ دستیوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے اس خطرے کے سدباب کے لیے 6 فوری اقدامات تجویز کئے ہیں۔
اُنہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس عفریت کے قابو سے باہر ہو جانے سے پہلے ہی اس کی سرکوبی کے لیے کچھ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے اور یہ (داعش) دُنیا کا امن تباہ کرنے کے لیے القاعدہ سے بھی آگے نکل جائے۔ میں نے کتاب میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے کہ بھارت کس طرح داعش کے قریب ہوا اور کس طرح بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے داعش کے ساتھ تعلقات کار قائم کئے تاکہ اُسے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمائے رکھنے میں استعمال کیا جا سکے۔ میں نے داعش اور آر ایس ایس کے درمیان تعلقات ثابت کر دئیے ہیں۔ آج داعش ازم اور آر ایس ایس ازم کے درمیان بہت گہرے تعلقات ہیں، ان تعلقات کو کشمیریوں میں نئے نئے مظالم ڈھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا، ایک اور انکشاف یہ کہ چینی لوگوں کو افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی ہے، خدشہ ہے کہ یہ تربیت یافتہ چینی دہشت گرد داعش کے ہاتھ نہ لگ جائیں! (تلخیص : حفیظ الرحمن قریشی)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38