کرکٹ کپ ٹورنامنٹ جو 30 مئی کو شروع ہوا تھا۔ بالآخر 14 جولائی کو اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ قوم ذہنی تشنج اور جذباتی ہیجان سے باہر نکل آئی ہے۔ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی فٹ بال کپ اور اولمپکس کی طرز پر ہونے لگا ہے۔ ہر چار سال بعد کرکٹ میلہ! ایک طویل عرصہ تک کرکٹ منقارزیر پر رہی اور اس قسم کی تقریبات کی متحمل نہ ہو سکی۔ وہ تو بھلا ہو برصغیر کی ٹیموں کا جنہوں نے اسے ہمت اور حوصلہ بخشا۔ قریباً دو ارب کی آبادی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بدولت سیم و زر کی ریل پیل۔ عبادت اور جنون کی حد تک ’’سپورٹ لوور کرائوڈ‘‘ یہ کھیل غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں۔ گمنامی سے مراد یہ ہے کہ اب بھی یہ اپنی جنم بھومی انگلستان میں پہلے نمبر کا کھیل نہیں ہے۔ ساکر (فٹ بال) اور ٹینس کے بعد ا س کا مقام آتا ہے۔برصغیر کی صورت اسکے برعکس ہے۔ کسی زمانے میں ہاکی بڑا مقبول کھیل ہوتا تھا۔ دھیان چند کا نام آج بھی لوگ بڑے ادب اور احترام سے لیتے ہیں۔ بال اس کی ہاکی کے ساتھ گوند کی طرح چپکا رہتا تھا۔ کئی دفعہ شک کی بنا پر ہاکیاں بدلی گئیں۔ اسکے ہاتھوں کا معائنہ ہوا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا…میں نے اپنے سابقہ کالم میں 1964ء کے لاس اینجلس اولمپک کا ذکر کیا ۔ پاکستان نے جب ورلڈ کپ جیتا تو ساری پاکستانی قوم کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ اسی طرح روم اولمپکس کے بعد بھی ٹیم کی بڑی عزت افزائی ہوئی۔ شہر شہر کھلاڑیوں کو پھرایا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اُن کا دیدار کرنے، اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے پہنچ گئے…جس طرح قوموں پر عروج و زوال آتا ہے اسی طرح کھیلوں پر بھی اچھے بُرے وقت آتے ہیں۔ آج ہاکی کا کھیل بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ کھلاڑی گوشہ گمنامی میں آ گئے ہیں۔ نت نئی ہار کی وجہ سے کھلاڑیوں کو بھی لوگ پہچانتے ہیں۔ سیکو بھائی، نِکو بھائی۔ یہ بھائی وہ بھائی، بھائیوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے تھے۔ چند ٹیسٹ کھیلے، ناکام ہو کر تبصرہ نگاروں کی پلٹن میں بھرتی ہو گئے ہیں چونکہ ملک میں ٹی ۔ وی چینلز کی بھرمار ہے۔ اس لیے گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ چینلز کو تبصرے کے لیے ’’نگ‘‘ بھرتی کرنا پڑتے ہیں۔ انکے تبصرے بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ کھیل کے تکنیکی پہلوئوں پر نظر نہیں ڈال رہے۔ اپنی محرومیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ بورڈ ان کی توپوں کی زد میں ہوتا ہے کیونکہ اس نے ان کو بھرتی نہ کر کے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔ سلیکٹرز پر تنقید کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں، بائیس کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر کھلاڑی پر تنقید کرنا یہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ بالفرض کوئی ناپسندیدہ کھلاڑی سنچری بھی بنا لے تو ان کا استدلال بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ اس ایزی وکٹ پر دو سو آسانی سے بن سکتے تھے۔ یہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لایا۔ اسی طرح کوئی بولر شومئی قسمت سے پانچ وکٹیں گرائے تو ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ ہیٹرک آسانی سے ہو سکتا تھا۔ تیسری وکٹ لینے کے لیے جب وہ دوڑا تو اس کے قدموں میں ’’رِدم‘‘ نہیں تھا۔ نیز بازو کو ٹھیک طرح سے گھما نہیں پایا۔ پتہ نہیں یہ فارسی محاورہ کب اور کس شخص کے لئے وضع کیا گیا تھا۔
دروغ گورا بہانہ بسیار
اسی طرح فنِ پہلوانی کو بھی برصغیر میں خاص مقام حاصل تھا۔ بھولو پہلوان رستم زمان گاما پہلوان جس نے ایک ہی جھٹکے میں زیسکو کی کلائی موڑ دی تھی۔ یہ فن بھی اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ اب جو پہلوان آ رہے ہیں وہ کھلاڑی کم اور بدمعاش زیادہ ہیں۔ آٹھ دس بھائیوں ا ور ان کے حامیوں کا ٹولہ پہلے سے ہی مخالف پہلوان کو تنبیہ کرتا ہے۔ ’’ہارنے میں ہی تمہاری عافیت ہے۔‘‘ بالفرض اپنے پہلوان کو ہارتا دیکھیں تو سارے اکھاڑے میں اُتر کر دھینگا مُشتی شروع کر دیتے ہیں۔یہ تو جاپانی پہلوان انوکی کو بھی زد و کوب کرنا چاہتے تھے، وہ تو بھلا ہو پولیس کا جس نے لاٹھی چارج کر کے اسکی جان بچائی! ایک کھیل جس پر پاکستان بجا طور پر فخر کر سکتا تھا وہ اسکواش ہے۔ ایک طویل عرصہ تک پاکستان عالمی چیمپئن رہا۔ جہانگیر خان اور جان شیر زمان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ بدقسمتی سے انہیں بھی پذیرائی نہ ملی۔ آج ایک عام پاکستانی انہیں جانتا تک نہیں ہے۔ یہ صرف اس اسکواش کو جانتے ہیں جو اوکاڑہ مچل فروٹ فارم میں کشید کی جاتی ہے۔
اب ذرا اپنی ٹیم کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں۔ ملک میں بحث چھڑ گئی ہے کہ سرفراز الیون کی کارکردگی اچھی تھی یا خراب تھی۔ جذباتیت سے قطع نظر ہمیں ا یک بات نہیں بھولنی چاہئے جو ٹیم حال ہی میں آٹھ میچ ایک تسلسل کے ساتھ ہاری ہو اس سے ورلڈ کپ جیتنے کی توقع کیسے کی جا سکتی تھی؟ یہ تو افغانستان سے وارم اَپ میچ بھی ہار گئے تھے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ معجزہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ UN PREDICTABLE ٹیم ہے۔ خاص دن میں ہمالیہ کو بھی سر کر سکتی ہے۔ بالفرض اس استدلال کو درست مان لیں تو بھی ہمالیہ کی ایک آدھ چوٹی فتح کی جا سکتی ہے۔ دس چوٹیوں کو تو نہیں پھلانگا جا سکتا… اسکے باوجود ٹیم کی مجموعی کارکردگی اچھی رہی ہے جس اگر ۔ مگر ۔ نے 1992ء میں پاکستان کو فائنل میں پہنچایا تھا ، وہی اگر مگر ان کے راستے میں آ گئی تھی اگر انگلینڈ ہندوستان سے ہار جاتا تو سیمی فائنل میں پہنچ جاتے۔ قرائین اور شواہد سے لگتا ہے کہ لالے پاکستان کو باہر رکھنے کے لیے جان بُوجھ کر ہارے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں چاہ کُن راہ چادر پیش، وہ اپنی ہی حکمت عملی کا شکار ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کی بجائے پاکستان سے سیمی فائنل کھیلتے تو ہو سکتا ہے جیت جاتے۔ پاکستان تو خیر اوپر نہیں جا سکا۔لالے بھی ہار کا غم چار سال تک نہیں بھول پائیںگے۔ ہندوستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا میچ بارش کی وجہ سے ڈرا ہو گیا۔ وہ ہو جاتا تو ہندوستان اس وقت نیوزی لینڈ کو آسانی سے ہرا سکتا تھا۔ اسی طرح پاکستان اور سری لنکا کا میچ بھی بارش کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ سری لنکا کمزور ٹیم تھی۔ آسانی سے ہار جاتی۔ سب سے بڑی ٹریجڈی ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیلنے میں ہوئی۔ ایسی ٹیم جو باقی ٹیموں کی ’’دُھر‘‘ بنی ہوئی تھی۔ اس نے پاکستان کو نہ صرف ہرایا بلکہ رن ریٹ کے اعتبار سے قہر مذلت میں دھکیل دیا۔اتنا بڑا خسارہ آخری چار میچ جیت کر بھی پورا نہ ہو سکا۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔
(All Eliments of Nature conspired Against The Team.)
تمام عناصر قدرت نے مل کر ٹیم کو شکست دی۔
اب رہا سوال کپتانی کا۔ سرفراز کسی اعتبار سے بھی کپتانی کا اہل نہیں۔ ایک تو اس کی فارم محل نظر ہے جو دن بدن گرتی جا رہی ہے بلکہ گر چکی ہے۔ جس شخص کی ٹیم میں بطور کھلاڑی جگہ نہ بنتی ہو‘ وہ کپتانی کیسے کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کھلاڑیوں میں اعتماد بحال کرنے یا ڈسپلن قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص کو انگریزی آتی ہو۔
لیکن کرکٹ میں انگریزی جاننا بوجہ ضروری ہے۔ یہ چند رٹے رٹائے جملے بھی ٹھیک طرح سے نہیں بول سکتا۔ جب بات کرتا ہے تو یوں گمان ہوتا ہے کہ کسی نے اس کو دبوچا ہوا ہے۔ جمائی لینا تو ایک قدرتی عمل ہے‘ لیکن یہ توجمائیوں پر جمائیاں لے رہا تھا۔ اس کو پتہ تھا کہ کیمروں کی زد میں ہے۔ نیک بخت منہ پر ہاتھ ہی رکھ لیتا۔ شعیب ملک اچھا پلیئر رہا ہے۔ عمر کے اعتبار سے کھیل کے لحاظ سے یہ اپنی اننگ کھیل چکا ہے۔ اگر ہم اپنی سابقہ تاریخ دیکھیں تو ماسوائے عمران خان اور چند دیگران کے پلیئر اپنی مرضی سے نہیں جاتے۔ انکے آگے ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں اور پھر دھکے دیکر نکالا جاتا ہے۔ آنے والے وقت کا ادراک کرکے ان دونوں کھلاڑیوں کو ازخود ریٹائر ہو جانا چاہئے ثانیہ مرزا بھی اپنے کیریئر کے آخری مراحل میں ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی فراغت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی گوشہ چمن میں بیٹھ کر پرانی یادوں کے چراغ جلائیں۔ میٹھی میٹھی باتیں کریں۔ اگر شعیب ملک کو کرکٹ سے اتنا ہی پیار ہے تو اس سے منسلک کئی شعبے ہیں۔ ایمپائر بنایا جا سکتا ہے کوچنگ کیلئے قسمت آزمائی کی جا سکتی ہے یا پھر آسان ترین کام کمنٹری کرنا ہے۔ آخر رمیز راجہ بھی تو اپنے پھسپھسے مزاج کے باوصف ایک کامیاب کمینٹیٹر ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024