قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی آزادی کی حنا ابھی ماند بھی نہ پڑی تھی کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں کو شہید کر دیا گیا۔ 1953ء میں لاہور سمیت پورے پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی لہر نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر 7ستمبر1974ء کو شدید تر عوامی دبائو کے ردعمل میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک طویل مباحثے کے بعد قادیانوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ مجھے میرِ صحافت جناب مجید نظامی صاحب کے ساتھ ان کا ادا کیا ہوا یہ مکالمہ یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’بھٹو میرا دوست تھا ہم ایک عرصہ انگلینڈ میںاکٹھے رہے پھر بھٹو کو اقتدار میں لانے تک میں اس کا دوست رہا مگر جب بھٹو اقتدار میں آیا تو میری اور میرے ادارے کی چپقلش شدید تر ہوتی گئی مگر جب بھٹو نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا تو میں نے اس کی ساری خطائیں اور غلطیاں دلی طور پر معاف کر دیں اور میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ہر عام انسان کی طرح بھٹو نے بھی زندگی میں نیکیاں اور بدیاں کی ہو نگی مگر روز محشر اس کی شفاعت کے لیے بس یہی کافی ہے کہ اس نے اطاعت خداوندی کرتے ہوئے عشق رسولؐ کا راستہ اختیار کیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر دنیا بھر کے مسلمان بادشاہوں میں سے شفاعت کا تاج اپنے سر پر رکھ لیا۔‘‘قارئین! مرزائیوں کے غیر مسلم قرار پانے کے بعد پاکستان کے سیاسی حالات کبھی معتدل نہ ہوئے شورشوں اور سازشوں نے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو گِھن لگانا شروع کر دیا۔ میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ قادیانی قانون اور آئین کا احترام کرتے ہوئے بحیثیت مذہبی اقلیت نہ صرف رہ سکتے بلکہ وطن کی تعمیر و ترقی میں دوسری اقلیتوں کی طرح مثبت کردار اداکرکے اپنے ہم وطنوں کو یہ پیغام بھی دے سکتے ہیں کہ وطن سے محبت کسی رنگ،نسل اور زبان ،کسی مذہب کی محتاج نہیں ہوتی۔قارئین! قادیانیوں کو جب غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا تو ان کی ایڈمنسٹریشن نے اپنا ہیڈ آفس ربوہ سے برطانیہ منتقل کر لیا اور سائوتھ افریقہ کی ایک عدالت میں یہ کیس دائر کر دیا کہ انہیں دوبارہ بحیثیت مسلم اپنی عبادت اور مذہبی رسومات ادا کرنے دیئے جائیں جس کے جواب میں اس وقت پاکستان کے نامور وکیل اور شریعت کورٹ کے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید ریاض الحسن گیلانی نے عالمی عدالت میں بھرپور دلائل دیئے اور حکومت پاکستان کے مؤقف کی فتح ہوئی لیکن جب سے پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان اقتدارمیں آئے ہیں تب سے شورش اور سازش نے پنپنا شروع کر دیا ہے۔ احمدی پاکستانیوں کو ذمہ داریاں سونپیں اور پھر پارلیمنٹ کے اندر ایک ایسا بِل منظور کروانے کی کوشش کی گئی جس کی رُو سے ملک کی یہ بڑی اقلیت اس قابل ہو جاتی کہ یہ اقتدار کے ایوانوں تک براہ راست پہنچ سکتی تھی ۔ اس کاوش کے ردعمل میں تحریک لبیک پاکستان نامی تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ جس سے ہماری عسکری قیادت نے اپنے فہم اور تدبر سے بمشکل جان چھڑائی۔ اس ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو بھی مزید دھچکا لگا اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد وہ مسلسل پاکستان کا سابقہ قرضہ اتارنے میں مصروف ہیں۔ یقینا یہ دور وہ تھا جب میاں نوازشریف کرپشن کے کیسز میں پھنسے ہوئے تھے اور ڈمی وزیراعظم خاقان عباسی مسندِ اقتدار پر تھا اور غیر ملکی سامراجی طاقتیں یہ خوب جانتی تھیں کہ سیاسی افراتفری کے اس عالم میں شاہد خاقان عباسی سے آئین میں ترمیم کروا کر قادیانیوں کی واپسی کی راہیں کھولی جا سکتی ہیں اور ابھی وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ جیسے ہی طے ہوا تو انہی قوتوں نے اس دورے کے مقاصد کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان کی جیل سے رہا ہونے والے ایک قیدی اور سرگودھا کے رہائشی اور پبلشر اکیاسی سالہ عبدالشکور قادیانی کو ظلِ الٰہی ڈونلڈ ٹرمپ کے دربار میں پیش کر دیا جس نے وہاں ایک من گھڑ ت بپتا سنا کر پاکستان کے معاشرتی وقار پر کاری ضرب لگانے کی سازش کی۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو فوٹیج اس بات کی غماز تھی کہ اکیاسی سالہ عبدالشکور شہنشاہ کے دربار میں فریاد کر رہا ہے اور ظالم قوم یعنی پاکستانیوں کی شکایت کر رہا ہے۔ قارئین! بحیثیت طالب علم لیڈر اور بعدازاں پاکستان کی مقتدر سیاسی شخصیات کے ساتھ پولیٹیکل ایڈوائزری اور قلم کاری کرتے ہوئے میرے بے شمار دوست اور احباب پاکستان میں موجود تمام مذاہب ،فرقوںاور مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میں نے کبھی کسی انسان کی مذہبی ترجیحات کی تذلیل نہیں کی کیونکہ میرا بحیثیت مسلمان یہ پختہ ایمان ہے کہ دنیا میں انسانیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور ہمیں خاص طور پر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور ہمارے دل کشادہ ہیں اور ہمارے سینے میں سارے ہم وطنوں کے لیے دھڑکتا دل ہے اور ان سب چیزوں کے مقابلے میں ہم اپنے ہم وطن عیسائیوں، ہندوئوں، سکھوں،پارسیوں اور قادیانیوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے مذہبی جذبات کا اسی طرح احترام کریں جس طرح آئین اور قانون نے ہمیں یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ آج وزیراعظم ڈونلڈٹرمپ کے دربار میں پیش ہوئے مگر اتوار کے روز انہوں نے کیپٹیل ہال میں تیس ہزار اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کیا اور ایک وزیراعظم آج سے سال بھر پہلے امریکہ آئے تھے میرا مطلب شاہد خاقان عباسی صاحب سے جن کی ایئرپورٹ پر تلاشی لی گئی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکٹڈ اور سلیکٹڈ میں ڈونلڈدربار میں کیا فرق ہے ؎
تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024