لوگ گرمی میں جھلس رہے ہیں‘ حبس سے لاچار ہو چکے ہیں‘ دستی پنکھوں کی ہوا لیتے لیتے تھک گئے ہیں‘ ہر آدھ گھنٹے‘ پندرہ منٹ بعد دو دو تین تین گھنٹے کی مسلسل لوڈشیڈنگ نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ بجلی کی کمیابی اور نایابی نے کاروبار زندگی ٹھپ کردیا ہے‘ روزگار حیات کو کٹھن بنا دیا ہے‘ کاروبار تباہ ہو رہے ہیں تو بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے اپریشن ملتوی یا منسوخ ہو رہے ہیں‘ درسگاہوں میں پڑھائی کے ساتھ رغبت کا رشتہ کمزور پڑنے لگا ہے۔ لوگ اپنی زندگی کی ان جبری پیدا کردہ کٹھنائیوں سے عاجز آکر سڑکوں کا رخ کرتے ہیں‘ سینہ کوبی کرتے ہیں‘ ٹائر جلا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں‘ جلوسوں اور ریلیوں میں اپنے حکمرانوں کا سیاپا کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں‘ یہ لوگ حکومت مخالفین کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ تاجر جان لیوا مہنگائی اور بجلی کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ کیخلاف ملک گیر ہڑتال کی کال دے کر اسے کامیاب بنا لیتے ہیں تو حکمران پارٹی کے عہدیداروں کی جانب سے طعنہ ملتا ہے ’’یہ سابقین کی باقیات ہیں جو حکومت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ پا رہیں‘‘۔ ارے عقل کے اندھو! مضطرب لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کا جو لاوا پک رہا ہے‘ طعنے دے کر اسکی شدت میں اضافہ نہ کرو‘ اپنے نادان مشیروں سے خلاصی پائو‘ یہ آپ کو عوامی جذبات سے کبھی آگاہ نہیں ہونے دیں گے‘ تاآنکہ یہ جذبات اقتدار کے ایوانوں کے مضبوط ستونوں کو ہلانا شروع کر دیں۔ پھر تو آپ خود بھی نوشتۂ دیوار پڑھ لیں گے‘ مگر اس وقت تک آپ کے پاس بچائو کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔
حکمران پارٹی کے جو لوگ اپنے یخ بستہ بیڈ روموں سے نکل کر اس سے بھی زیادہ یخ بستہ ڈرائنگ روموں اور پھر پرتعیش گاڑیوں میں گرم ہوا کے کسی جھونکے کی اذیت برداشت کئے بغیر سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ فائیو سٹار ریستورانوں میں آدھمکتے ہیں اور ٹھنڈے لذیز مشروبات کی چسکیاں لیتے ہوئے پریس کانفرنس میں ہڑتال پر جانے والوں کو مخصوص مفادات کے حامل ٹولے کا طعنہ دے کر بپھرے ہوئے عوام کے سامنے حکومت کے مضبوط ہونے کا تاثر پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں‘ وہ اپنے حکمرانوں کے خیرخواہ ہرگز نہیں‘ ورنہ وہ ’’مٹھی بھر احتجاجیوں‘‘ کے مظاہرے اور ہڑتال کی کال کی ناکامی کی تصویر دکھا کر اپنے حکمرانوں کو عوامی ردعمل سے کبھی لاعلم نہ رکھیں۔ جب اس ردعمل میں اقتدار کی کرسی لرزتی ہوئی نظر آئیگی‘ تو عادی رطب اللسانوں کا یہ گروہ پھسلتے پھسلتے نظروں سے غائب ہو چکا ہو گا۔
اس وقت بدترین مظاہروں کی شکل میں گزشتہ ایک ہفتے سے کراچی کی جو فضاء بنی ہوئی ہے‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ جھنگ‘ فیصل آباد‘ اوکاڑہ سمیت ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں جاری احتجاجی مظاہرے جس طرح تشدد اور جارحیت کی راہ اختیار کرنے کی جانب گامزن ہیں‘ مارکیٹیں‘ بازار بند رکھنے کی صرف ایک کال پر پورے ملک میں شٹر ڈائون ہو رہا ہے۔ جگہ جگہ پر مظاہروں کی وجہ سے ٹریفک کا پہیہ جامد نظر آرہا ہے اور 80, 70 سالہ بابے بھی احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو کر سینہ کوبی کرتے نظر آرہے ہیں۔ کیا وہ سب حکومت مخالف سیاست دانوں اور تاجروں کی شہ یا انگیخت پر سڑکوں پر آرہے ہیں؟ اور بارونق بازاروں اور مارکیٹوں کو بند کرا رہے ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ لوگ تو اپنے مسائل کی شکل میں لاانتہا دکھوں سے عاجز آکر ازخود سڑکوں پر آنے لگے ہیں اور حکومتی پالیسیوں سے مایوس اور مشتعل ہو کر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ گھیرائو‘ جلائو کے راستے پر چل نکلے ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ کسی کے اشارے پر کر رہے ہیں۔ اب ان کے پاس کسی کے ’’اشاروں‘‘ کی جانب توجہ دینے کی ہمت ہی کہاں رہی ہے؟ انہیں تو پہلے مہنگائی نے مار رکھا تھا‘ اب بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ نے انہیں زندہ درگور کر دیا ہے۔ وہ ’’نہ جائے ماندن‘ نہ پائے رفتن‘‘ کی تصویر بنے اپنے منتخب حکمرانوں کا چال چلن دیکھ رہے ہیں۔ انکے وعدے سن رہے ہیں اور ان پر عمل نہ ہوتا پا کر مایوسی کے عالم میں گھیرائو جلائو کی شکل میں اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں‘ وہ کسی کے اشارے پر ہرگز ایسا نہیں کر رہے‘ انکے منہ سے روٹی کا نوالہ چھینا جائے گا تو کیا وہ اس جبر کو بخوشی قبول کرکے اپنے حبس زدہ کمروں کے اندھیروں میں بیٹھے صرف اپنے مقدر کا رونا روتے رہیں گے؟
جناب! اب لوگ ڈھگے نہیں رہے‘ اپنے حقوق کا اظہار بھی کرتے ہیں اور یہ حقوق غصب کرنے والوں سے نمٹنا بھی جانتے ہیں۔ آج شٹر ڈائون ہوا ہے‘ گھیرائو جلائو میں ریلوے ٹرینوں کی بوگیاں اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ جلائی گئی ہے‘ خشک روٹی کے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر سینے اور منہ پر دو ہتھڑ مارتے ہوئے‘ ریلوے کی پٹڑیوں کے آگے لیٹ کر ٹرینیں رکواتے ہوئے حکمرانوں کو اپنے احتجاج کا رنگ دکھایا گیا ہے تو کل کو یہ احتجاج محض سڑکوں پر نہیں رہے گا۔ آپکی پالیسیوں کے ستائے عوام کا گھیرا آپ کیلئے تنگ ہو رہا ہے۔ آج مصاحبین کے گھیرائو سے تو نکل سکتے ہیں‘ لیکن بھوکوں ماری‘ لوڈشیڈنگ کی ستائی خلق خدا کے گھیرے سے نکلنا آپ کیلئے ناممکن ہو جائیگا اور آپ نے سوکھے زرد چہروں کی مایوس آنکھوں میں زندگی کی رمق دوڑانے کا اہتمام نہ کیا تو سمجھو وہ وقت اب آن پہنچا ہے جب تخت اچھالے جائیں گے‘ جب تاج گرائے جائیں گے۔
حکمران پارٹی کے جو لوگ اپنے یخ بستہ بیڈ روموں سے نکل کر اس سے بھی زیادہ یخ بستہ ڈرائنگ روموں اور پھر پرتعیش گاڑیوں میں گرم ہوا کے کسی جھونکے کی اذیت برداشت کئے بغیر سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈ فائیو سٹار ریستورانوں میں آدھمکتے ہیں اور ٹھنڈے لذیز مشروبات کی چسکیاں لیتے ہوئے پریس کانفرنس میں ہڑتال پر جانے والوں کو مخصوص مفادات کے حامل ٹولے کا طعنہ دے کر بپھرے ہوئے عوام کے سامنے حکومت کے مضبوط ہونے کا تاثر پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں‘ وہ اپنے حکمرانوں کے خیرخواہ ہرگز نہیں‘ ورنہ وہ ’’مٹھی بھر احتجاجیوں‘‘ کے مظاہرے اور ہڑتال کی کال کی ناکامی کی تصویر دکھا کر اپنے حکمرانوں کو عوامی ردعمل سے کبھی لاعلم نہ رکھیں۔ جب اس ردعمل میں اقتدار کی کرسی لرزتی ہوئی نظر آئیگی‘ تو عادی رطب اللسانوں کا یہ گروہ پھسلتے پھسلتے نظروں سے غائب ہو چکا ہو گا۔
اس وقت بدترین مظاہروں کی شکل میں گزشتہ ایک ہفتے سے کراچی کی جو فضاء بنی ہوئی ہے‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ جھنگ‘ فیصل آباد‘ اوکاڑہ سمیت ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں جاری احتجاجی مظاہرے جس طرح تشدد اور جارحیت کی راہ اختیار کرنے کی جانب گامزن ہیں‘ مارکیٹیں‘ بازار بند رکھنے کی صرف ایک کال پر پورے ملک میں شٹر ڈائون ہو رہا ہے۔ جگہ جگہ پر مظاہروں کی وجہ سے ٹریفک کا پہیہ جامد نظر آرہا ہے اور 80, 70 سالہ بابے بھی احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو کر سینہ کوبی کرتے نظر آرہے ہیں۔ کیا وہ سب حکومت مخالف سیاست دانوں اور تاجروں کی شہ یا انگیخت پر سڑکوں پر آرہے ہیں؟ اور بارونق بازاروں اور مارکیٹوں کو بند کرا رہے ہیں؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ لوگ تو اپنے مسائل کی شکل میں لاانتہا دکھوں سے عاجز آکر ازخود سڑکوں پر آنے لگے ہیں اور حکومتی پالیسیوں سے مایوس اور مشتعل ہو کر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ گھیرائو‘ جلائو کے راستے پر چل نکلے ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ کسی کے اشارے پر کر رہے ہیں۔ اب ان کے پاس کسی کے ’’اشاروں‘‘ کی جانب توجہ دینے کی ہمت ہی کہاں رہی ہے؟ انہیں تو پہلے مہنگائی نے مار رکھا تھا‘ اب بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ نے انہیں زندہ درگور کر دیا ہے۔ وہ ’’نہ جائے ماندن‘ نہ پائے رفتن‘‘ کی تصویر بنے اپنے منتخب حکمرانوں کا چال چلن دیکھ رہے ہیں۔ انکے وعدے سن رہے ہیں اور ان پر عمل نہ ہوتا پا کر مایوسی کے عالم میں گھیرائو جلائو کی شکل میں اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں‘ وہ کسی کے اشارے پر ہرگز ایسا نہیں کر رہے‘ انکے منہ سے روٹی کا نوالہ چھینا جائے گا تو کیا وہ اس جبر کو بخوشی قبول کرکے اپنے حبس زدہ کمروں کے اندھیروں میں بیٹھے صرف اپنے مقدر کا رونا روتے رہیں گے؟
جناب! اب لوگ ڈھگے نہیں رہے‘ اپنے حقوق کا اظہار بھی کرتے ہیں اور یہ حقوق غصب کرنے والوں سے نمٹنا بھی جانتے ہیں۔ آج شٹر ڈائون ہوا ہے‘ گھیرائو جلائو میں ریلوے ٹرینوں کی بوگیاں اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ جلائی گئی ہے‘ خشک روٹی کے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر سینے اور منہ پر دو ہتھڑ مارتے ہوئے‘ ریلوے کی پٹڑیوں کے آگے لیٹ کر ٹرینیں رکواتے ہوئے حکمرانوں کو اپنے احتجاج کا رنگ دکھایا گیا ہے تو کل کو یہ احتجاج محض سڑکوں پر نہیں رہے گا۔ آپکی پالیسیوں کے ستائے عوام کا گھیرا آپ کیلئے تنگ ہو رہا ہے۔ آج مصاحبین کے گھیرائو سے تو نکل سکتے ہیں‘ لیکن بھوکوں ماری‘ لوڈشیڈنگ کی ستائی خلق خدا کے گھیرے سے نکلنا آپ کیلئے ناممکن ہو جائیگا اور آپ نے سوکھے زرد چہروں کی مایوس آنکھوں میں زندگی کی رمق دوڑانے کا اہتمام نہ کیا تو سمجھو وہ وقت اب آن پہنچا ہے جب تخت اچھالے جائیں گے‘ جب تاج گرائے جائیں گے۔