
قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ
قارئین کرام: عوام کی ووٹوں کے طاقت سے برسراقتدار ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی آڑ میں اپنے اپنے سیاسی مفادات کی جنگ میں برسر پیکار ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ا س کے غریب عوام روٹی کے لیے تر س رہے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری آٹے کی حصول کے لئے خون جما دینے والی سردیوں کے موسم میں لائینوں میں انتظار کی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ میڈیااطلاعات کے مطابق سرکاری آٹے کے ہجوم کے دوران تین افراد جان کی بازی ہار گئے ۔ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مجبور عوام کے پیسے ہاتھ میں موجود ہیں لیکن آٹا دستیاب نہیں۔ایک طرف امیر زادوں کے کتے سیر ہوکر کھا رہے ہیں اور دوسری طرف اشرف المخلوقات روٹی کے نوالے کو ترس رہی ہے۔غربت کی ستائی ہوئی ایک بچی ڈاکٹر تک پہنچتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپکے پاس ہرقسم کا علاج ہے نا۔۔ ڈاکٹر۔۔ کیوں بیٹا آپکو کیا مسئلہ ہے؟بچی کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوائی دیجئے کہ مجھے بھوک نہ لگے۔بھوک وافلاس کے دل خراش واقعات جگہ جگہ ہماری توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں لیکن ہماری نگاہ ان پر نہیں پڑتی کہ ہم رات کو پیٹ بھر کر جو سوتے ہیں آپکو کیا پتہ کہ محلے کے کتنے گھروں میں آج کتنے دن سے فاقہ چل رہا ہے۔ ہماری نظر تو صرف اجلے لباس اور چمکتے چہروں پر جاتی ہے لیکن آج کے معاشرے میں بھوک اور افلاس شاید ساٹھ ستر فیصد تک بڑھ چکی ہے بچوں کے پاس سکول کی فیس دینے کے پیسے نہیں ہیں لوگوں کے موٹر سائیکل گھروں میں کھڑے ہیں پٹرول کے پیسے نہیں ہیں اماں جی کی دوائی تک کے پیسے نہیں ہیں عجیب دور آگیا ہے کسی کے پاس اگر پیسے ہیں بھی تو اسکے دوسرے کسی بہن بھائی کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ ہم کیسے مسلمان ہیں ہم بھائی کو تکلیف میں دیکھ کر کڑھتے نہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں۔کیا آج کے معاشرے میں اخلاقی قدریں ناپید ہوچکی ہیں۔ہمارا ملک بحرانوں کا ملک بنتا جارہا ہے کبھی چینی نہیں ملتی کبھی پیاز نہیں ملتا کبھی گھی نہیں ملتا کبھی چاول آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں کبھی ٹماٹر نایاب ہوجاتے ہیں اور ہر چیز ہمیں باہر سے منگوانا پڑتی ہے یہ ایک زرعی ملک ہے غیر آباد رقبہ کاشت بھی کیا جاسکتا ہے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں کسانوں اور زمینداروں کو اقساط پر کھاد بیج فراہم کیا جاسکتا ہے چھوٹے پیمانے پر انڈسٹریاں لگانے کیلئے آسان اقساط پر قرض فراہم کیا جاسکتا ہے ہم نے کبھی غریب طبقے کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہمارے تمام منصوبے اور قوانین بڑے لوگوں کو آسانیاں دینے کیلئے بنائے جاتے ہیں بیروزگاری ایک گھمبیر مسئلے کی صورت اختیار کر چکی ہے آج تک حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والوں نے کبھی اس بارے کوئی پلاننگ نہیں کی۔اور غریب غریب تر ہوتا جارہاہے لوگ گردے بیچنے پر مجبور ہیں کہیں بنت حوا کی عزت تار تار ہورہی ہے ہم نے کبھی نہیں سوچا کی ہماری وجہ سے کسی غریب کا چولہا جلنے لگے ہم تو بس اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔خدارا احساس کیجئے ایسے لوگوں کا جو نادار ہیں مفلس ہیں بیروزگار ہیں کثیرالعیال ہیں اگر ہم نے اپنی سوچ نہ بدلی تویقین کیجئے بہت براوقت آرہا ہے رہزنی عام ہوگی لوگ آٹے کے ٹرک لوٹ کر لے جائیں گے آٹا تو بنیادی ضرورت ہے خدا کیلئے یہ تو عام کیجئے مہنگائی کے ہاتھوں نہ ماریئے لوگوں پر رحم کیجئے لوگوں کی قوت خرید صفر ہوچکی ہے کاروبار اور کمپنیاں تباہی ہوچکی ہیں انہیں سنبھالا دیجئے.
قا رئین کرام: میرے ایک ڈاکٹر دوست نے ایک دلخراش واقعہ بتایا کہ چند دن پہلے میرے پاس ایک نوجوان کو لایا گیا تھا جسے گولی لگی تھی خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا مگر نوجوان کے حواس ابھی قائم تھے ۔ میری یونیفارم دیکھ کر اس نے مجھ سے التجا کی کہ ڈاکٹر صاحب میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دیجئے گا اور ساتھ ہی میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے۔مجھے حیرت تھی کہ میں اسے بچانے کے لیے پر امید تھا اور وہ شخص یقینی موت کی بات کر رہا تھا۔ خیر میں نے اسے تسلی دی اور آپریشن تھیٹر پہنچے جہاں اسے بیہوش کرنے کے لئے انجیکشن دیا گیا اور ساتھ ہی میں اس کی روداد بھی سنتا رہا۔ کہانی سناتے سناتے لڑکا بیہوش ہو گیا اور اسی بیہوشی کے دوران اس کی موت ہو گئی مگر اس کے موت مجھے جھنجوڑ کر رکھ گئی۔ شاید پڑھنے والوں کو بھی جھنجوڑ دے اس لئے واقعہ بتا رہا ہوں کہ جب لڑکے نے التجا کی کہ میری موت کی خبر میرے گھر والوں کو نہ دیجئے گا بلکہ لاش ایدھی سینٹر یا چھیپا کے حوالے کر دیجئیے گا تو میں نے اس سے پوچھا ایسی کیا وجہ ہے؟ اس نے بتایا کہ میرے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں میری تین چھوٹی بہنیں ہیں جنہوں نے پچھلے دو دن سے کچھ نہیں کھایا مجھے آج دو دن بعد مزدوری ملی اور میں دیہاڑی لگا کر آ رہا تھا کہ راستے میں ڈاکوؤں نے مجھے لوٹنے کی کوشش کی۔ میرے پاس کل دولت وہ آج کی دیہاڑی لگ جانے والی مزدوری اور یہ ایک پرانا سا موبائل تھا اگر صرف میری بات ہوتی تو میں شاید یہ تیرہ سو روپے ڈاکوؤں کو دے دیتا مگر مجھے پتہ تھا گھر میں دو دن سے بھوکی بیٹھی میری بہنیں روٹی کے انتظار میں میری راہ دیکھ رہی ہیں یہ پیسے ڈاکو لے گئے تو میری بہنیں کیا کھائیں گی؟ جب کہ یہ لوگ خوف خدا سے عاری ہیں یہ تو کسی اور کو بھی لوٹ لیں گے لہذا میں نے مزاحمت شروع کر دی اور ان ظالموں نے محض اس تیرہ سو روپے کی خاطر مجھے گولی مار دی۔ڈاکٹر صاحب مجھے پتہ ہے میں مر جاؤں گا مگر مجھے فکر ہے کہ میرے گھر والے جن کے پاس روٹی تک کے پیسے نہیں ہیں وہ میرے لئے کفن کے پیسے کہاں سے لائیں گے۔ قبر کے پیسے کہاں سے لائیں گے لہذا میرے گھر والوں کو میری موت کی خبر نہ دی جائے۔ ساتھ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے اور موبائل میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے گھر کا ایڈریس بتایا اور کہا یہ پیسے گھر پہنچا دینا اور یہ موبائل ںیچ کر میری چھوٹی بہن کو نئی جوتی خرید دینا۔ بہت دنوں سے ضد کر رہی تھی۔ اگر میری والدہ کا حوصلہ بلند ہوا تو انہیں تسلی دیتے ہوئے میری موت کی خبر دے دینا ورنہ کہہ دینا کہ آپ کا بیٹا کسی دوسرے شہر مزدوری کے لئے چلا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان حالت غنودگی میں چلا گیا اور وہیں سے موت کی آغوش میں جا پہنچا۔مگر میں تب سے سوچ رہا کہ اب تک ہم پر پتھروں کی بارش کیوں نہیں ہوئی سیلاب ہم کو کیوں بہا نہیں لے گیا؟سرکش جنّات کی طرح ہمارا قلع قمع کرنے کے لئے فرشتے کیوں نہیں اتر رہے؟ ہم لوگ اب تک قہر الٰہی سے محفوظ کیوں ہیں؟ جبکہ مسلمانوں والے اعمال ہماری اکثریت کب کی چھوڑ چکی ہے بد دیانت حکمران بد دیانت عوام، لٹیرے حکمران لٹیری عوام، قاتل حکمران قاتل عوام۔