اور اب کھاد کا بحران!
پاکستان میں آئے روزایک نیا بحران جنم لے رہا ہے مگر حکومت کو کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کو کس طرح ان بحرانوں سے نکالا جائے۔ کبھی چینی، آٹے اور پٹرول تو کبھی کھاد کا بحران۔ مگر اس کا نقصان صرف اور صرف غریب عوام کو اُٹھانا پڑ رہا ہے مگر اب کھاد کا موجودہ بحران ہماری زراعت کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے اس وقت گندم کے کاشتکاروں کو کھاد کی اشد ضرورت ہے مگر کھاد ہے کہ ملنے کا نام نہیں رہی۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں کہ آٹے کا بحران سر اٹھائے کھڑا ہوگا اور اس کا نقصان کبھی پورا نہیں کیا جا سکے گا۔ 3 لاکھ ٹن یوریا کسی کھاتے میں نہیں، نجانے کہاں غائب ہو گئی کوئی بتانے کو تیار نہیں ۔حکومت کسانوں کو کھاد فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور انتظامیہ نے ذخیرہ اندوزی،بلیک مارکیٹنگ کے زریعے کروڑوں روپے کما لیے ہیں اور کسانوں کو لائنوں میں لگا کر ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کسان کو شناختی کارڈ پر بھی کھاد نہیں مل رہی ۔ کہا جاتا ہے کسان کارڈ لے کر آؤ جس کے پاس کسان کارڈ نہیں ہے وہ بیچارہ کسی صورت سرکاری ریٹ پر کھاد نہیں لے سکتا۔
انتظامیہ کی فرضی کارروائیاں تو جاری ہیں مگر جہاں کھاد ذخیر ہ کی گئی ہے انتظامیہ وہاںجاتی نہیں ۔ اس وقت پورے پاکستان میں خوفناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ کسان بلیک میں کھاد کے حصول کیلئے لمبی لائنوں میں لگے ہیں لیکن ان کو کھاد نہیں مل رہی اور مڈل مین (غیر کسان عناصر) کھاد سرکاری ریٹ پر لیکر کسانوں کو بلیک میں فروخت کر کے لاکھوں روپے کما رہے ہیں اور کسانوں کو ایک یا دو بوریاں مل رہی ہیں مگر انتظامیہ ان (غیر کسان عناصر)کو 100 یا 200 بوری روزانہ کی بنیاد پر دے کر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے اور کسان سے فی بوری یوریا کھاد کی قیمت کی مد میں 2600 روپے اور ڈی اے پی کی قیمت فی بوری 9800 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں ۔
کسان تنظیموں نے کھاد کی عدم دستیابی پرحکومت کو خبردارکردیا ہے کہ اس صورتحال میں رواں سال گندم کی اوسط پیداوار 50 فیصد کم ہونے کا خدشہ ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو قحط تیزی سے اس ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر کھاد نہیں ہو گی تو کپاس،چاول ،گنا، دالیں اور سبزیاں کیسے تیار ہونگی ؟حکومت وقت کو سوچنا چاہئے اگر گندم نہیں ہوگی تو عوام بھوک سے مر جائیں گے ۔حکومت کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کو روکنے کیلئے جامع پلان مرتب کرے تاکہ کھاد کی کمی کو پورا اور اس کی سمگلنگ کو روکا جائے کیونکہ تاجر حضرات کی جانب سے کھاد کے چھپائے گئے سٹاک تیزی سے ایران،افغانستان اور دوسرے ممالک میں سمگل کیے جا رہے ہیں۔ہمارا وزیر اعظم سے مطالبہ ہے کہ کھاد کی سمگلنگ روکنے کے ساتھ ساتھ اس بحران کو پیدا کرنے میں ملوث عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دلوائی جائے اور آئندہ کیلئے ایک جامع پلان ترتیب دیا جائے تاکہ کسان دوبارہ اس طرح کے بحران کا شکار نہ ہوسکیں ۔