عالمی سیاست میں ماسکو، شنگھائی اور اسلام آباد کا کردار

عالمی سیاسی منظر نامہ یکسر بدل گیا ہے علاقائی تبدیلیوں نے ماسکو اور اسلام آباد کے بیچ دو طرفہ تعلقات استوار کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ روس اپنا اثرورسوخ یوریشیا تک بڑھانے میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے ۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں روس پاکستانی کردار کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ مزید برآں روس بحیرہ عرب تک رسائی چاہتا ہے جو کہ سی پیک فراہم کر سکتا ہے۔حالیہ برسوں میں بھارت کی امریکہ کے ساتھ فوجی تعلقات کی وسعت نے ، پاکستان کو روس کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔امریکہ کے علاوہ ایک اور عالمی طاقت کے ساتھ استوار ہوتے تعلقات نے عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے ۔ ماضی میں مختلف ترجیحات اور جغرافیائی حقائق نے پاک روس تعلقات کو نہ پنپنے دیا تاہم بدلتے علاقائی حالات نے دونوں کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا موقع فراہم کیا ہے۔
گزشتہ سالوں میں روس نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینی شروع کر دی ہے۔سیکورٹی سے متعلق روس، چین، پاکستان کے ملتے جلتے مفادات نے روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ تینوں ممالک نے گزشتہ برسوں میں افغانستان سے متعلق اجلاس میں بھارت کو شامل نہ کیا جس پر بھارت نے ماسکو کو اپنے اعتراضات سے فوری آگاہ کیا۔ بھارت روس کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کو سپورٹ کرتا ہے۔ ماسکو دہشتگردی کو افغانستان میں قابو کرنے کیلئے طالبان کو اور وہاں امن کے قیام میں پاکستان کے کردار کو بھی ناگزیر سمجھتا ہے۔ روس نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کیں تاہم یہ مشقیں اس وقت ہوئیں جب پاکستان اور بھارت کے بیچ اڑی حملے کے بعد فوجی تناؤ چل رہا تھا۔ روس نے پاکستان کو چار ہیلی کاپٹرز بھی فراہم کیے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ روس جہاں تاریخی طور پر بھارت سے دور ہو رہا ہے وہیں وہ پاکستان کے قریب ہو رہا ہے۔
سی پیک کی صورت میں پاکستان کو جو معاشی فوائد اور مواقع حاصل ہیں،پاکستان ان میں روس کو شامل کر کے تعلقات کو از سر نو وسعت دے سکتا ہے۔ سی پیک علاقائی اور عالمی معاشی سرگرمیوں کی وسعت میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ سی پیک ’’ لینڈ لاکڈ‘‘ملکوں کو بحیرہ عرب کے گرم پانیو ں تک رسائی بھی دے گا جس کی روس نے ایک عرصے سے خواہش رکھی ہے۔ ماسکو اور اسلام آباد کے مابین سی پیک اوریوریشین اکنامک یونین کو ملانے سے متعلق بات چیت کی خبریں ان ہیں ۔گرم پانیوں تک رسائی کے علاوہ روس پاکستان کو ہتھیار بھی فروخت کر سکتا ہے۔ پابندیوں میں جکڑا ہوا اور دفاعی منڈی میں ہتھیاروں کی فروخت میں سخت مقابلے کی وجہ سے روس نئی منڈیاں تلاش کر رہا ہے۔ افغانستان میں دیرپا استحکام لانے میں روس کو پاکستان کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کی داخلی سیکورٹی کا ضامن ہے۔ پاکستان کو اپنے قومی مفادات کی خاطر اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پاک روس تعلقات میں دو طرفہ گرمجوشی اس تبدیلی کی بڑی مثال ہے۔ پاکستان کیلئے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کا عالمی سیاست اور امریکہ کو ایک واضح پیغام ہو گا کہ ایک نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ سیکورٹی، توانائی اور معاشی تعلقات میں بہتری یہ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے بیچ سرد مہری ختم ہو گئی ہے۔ علاقائی امن اور خوشحالی کو وسعت دینے کیلئے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں لگاتار تبدیلی لانی چاہئے جو کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ مثبت تعلقات بنانے سے ہی قائم ہو گی۔