ریاست مدینہ اور بزرگ شہری

حضرت قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے والے مجاہدوں کی زیادہ تر تعداد اللہ کو پیاری ہو چکی ہے اور قیام پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہونے والی نسل تو اب بڑھاپے کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بزرگ اس ملک کا یقینا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان بزرگوں کی دن رات محنت نے اس وطن کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا لیکن آج ہم ان بزرگوں کی فلاح وبہبود اور ان کی خدمات کا صلہ دینے میں صریحاً غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں پر بزرگ شہریوں کو ہر طرح کی سہولتیں ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جاتی ہیںلیکن کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ہمارے ہاں بزرگ شہری بنکوں اور ڈاک خانوں کے سامنے سخت سردی اور گرمی میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ بنکوں کے کاؤنٹرز پر ایک کاغذ SENIOR CITIZEN لکھ کر نمائشی طور پر لگا دیا جاتا ہے لیکن عملاً کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح پی آئی اے، ریلوے، بسوں، پبلک ٹرانسپورٹ، میٹروبس، اورنج ٹرین میںبزرگوں کی لیے سیٹیں مختص ہی نہیں کی جاتیں۔ ہسپتالوں اور لیبارٹریز میں جانے والے بزرگوں کو کوئی پوچھتا تک نہیں ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان عمر رسیدہ بزرگوں کو ٹیکسوں سمیت بجلی پانی گیس کے بلوںمیں بھی کسی قسم کی رعائت نہیں دی جاتی۔ اگر بزرگوں کو پراپرٹی ٹیکس اور وہیکلز ٹیکس میں صوبے رعائت دیتے ہیں تو مرکز رعائت نہیں دیتا۔ اگر اس مد میں وفاق کوئی رعائت دے دے تو اس کو صوبے ’’صوبائی خود مختاری‘‘ کی آڑ میں تسلیم نہیں کرتے بزرگ شہریوں کیلئے لائبریریوں، پبلک پارکس، تھیٹر، سینما گھروں اور دیگر مقامات پر داخلے کے لیے کوئی رعائت نہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ حج پر زیادہ بزرگ ہی جاتے ہیں اس میں انہیں کرائے اور اخراجات کی مد میں کم از کم 35 فیصد رعایت دی جائے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بزرگ شہریوںکو کاروبار کیلئے بنکوں سے قرضوں کی سہولت، مکانات کی تعمیر کیلئے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے قرضے کا حصول، ڈرائیونگ لائسنس کا حصول، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت پلاٹ یا مکان کے لیے درخواست دینے کے لیے اہل تصور نہیں کیا جاتا۔ اسے تو بنک میں نیا اکاؤنٹ کھولنے اور بیمہ پالیسی لینے کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت، اس کے ادارے قومی بنک حتیٰ کہ عام عوام بھی بزرگوں کو ’’چلے ہوئے کارتوس‘‘ سمجھتے ہوئے کسی قسم کی لفٹ نہیں کرواتے۔
ہم نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لیتے ہیں اور ہر روز ’’ریاست مدینہ‘‘ کی گردان بھی تسلسل سے کرتے ہیں لیکن عملاً بزرگوں کو معیشت اور معاشرہ کے اوپر بوجھ قرار دیتے ہیں۔ وہ بزرگ جو سرکاری، پرائیویٹ یا رجسٹرڈ صنعتی اداروں میںکام نہیں کرتے ہماری ریاست مدینہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھے انہیں خیراتی کارڈ احساس پروگرام لنگر خانوں پناہ گاہوں اور ماہانہ امداد کے سیاسی کھیل سے دور رکھے اور ان بزرگوں کی عزت نفس کا ہر صورت میں خیال رکھے۔ انہیں کسی قسم کی امداد دیتے وقت انہیں فوٹو سیشن سے ہر صورت میں دور رکھے۔
اس وقت ریاست مدینہ میں سرکاری، نیم سرکاری محکموں، خودمختار اداروں، کارپوریشنز اور رجسٹرڈ صنعتی اداروںکے ریٹائر ہونے والے بزرگ مالی، معاشی اور صحت کے مسائل کا بری طرح شکار ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود ان کی پنشن میں کئی کئی سال اضافہ نہیں کیا جاتا۔
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ مالی سال 2021-2022ء کے دوران ملک میں مہنگائی میں 40 فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا جبکہ ادویات کی قیمتوں میں 40 سے 200 فیصد تک ریکارڈ اضافہ ہوا لیکن ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والی حکومت نے ان کی پنشن میں محض دس فیصد کا اضافہ کر کے ’’حاتم طائی کی سخاوت‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت صنعتی اداروں سے ریٹائر ہونے والے بزرگ پنشنرز صرف 8500 ماہوار پنشن لے رہے ہیں۔ جس میں گذشتہ کئی سالوں سے ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ جو کم ازکم 21000 ماہوار ہونی چاہیے۔
بھلا ہو وزیراعظم کے دوست اور سابق مشیر زلفی بخاری کا کہ جنھوں نے ’’سب کی مخالفت‘‘ کے باوجود ای او بی آئی پنشن بڑھا کر 6500 ماہوار سے8500 روپے ماہوار کر دی تھی۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کا سب سے امیر ادارہ ای او بی آئی ہی ہے جس میں اربوں روپے کے گھپلے ہو چکے ہیں اور بدعنوان افراد پر نیب شکنجہ بھی کس چکی ہے۔
دوسری طرف تکلیف دہ امر یہ ہے کہ حکومت سیاسی اقرباپروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرکشش پوسٹوں پر اپنے منظور نظر ریٹائرڈ بزرگ افراد کو بھاری معاوضے پر لگا دیتی ہے جو کہ سراسر قومی خزانے کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور منی بجٹ کی وجہ سے پاکستان کے تمام پنشنروں کی پنشن میںکم از کم 50 فیصد کا فوری اضافہ کیا جائے اس کے علاوہ حاضر سروس ملازمین کی طرح تمام پنشنروں کو یکم مارچ 2021ء سے ڈسپیریٹی الاؤنس بھی دیا جائے جو کہ بزرگ پنشنرز کا جائز حق ہے۔
بزرگ پنشنروں کے حوالے سے یہ بات دکھ اور افسوس کی ہے۔ تمام قومی بنکوں نے 2000 سے اپنے تمام پنشنروں کی پنشن منجمند کر دی تھی جس میں گذشتہ بیس سالوں کے دوران ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بنکوں کے بوڑھے بزرگ پنشنرز 5000 سے 8000 روپے ماہانہ کی پنشن پر گزارا کر رہے ہیں۔ اس زیادتی اور ناانصافی کے خاتمہ کیلئے وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کو سخت ترین احکامات جاری کرنا ہونگے تا کہ بنک کے پنشنروں کی منجمند شدہ پنشن بقایا جات سمیت بحال ہو سکے۔
اسی طرح قومی ائرلائن پی آئی اے اور زرعی بنک کے پنشنروں کی پنشن میں گذشتہ کئی سالوں سے اضافہ نہیں ہوا۔ اس زیادتی کا بھی فوری طور پر ازالہ کیا جائے کیونکہ ریاست مدینہ کا عملاً تصور بھی یہی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، پاکستان کے تمام بزرگوں کی فلاح و بہبود، ان کے مالی اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع پالیسی بنائے ریاست مدینہ کے صرف نعرے ہی نہ لگائے بلکہ بزرگوں کے لیے عملی طور پربھی کچھ کر کے دکھائے حکومت یہ بات یاد رکھے کہ بلدیاتی اور عام انتخابات کا موسم آ رہا ہے اور ملک میں 60 سال سے زائد عمر کے بزرگ ووٹروں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے یہ قیمتی ووٹ حکومت کو آسانی سے مل سکتے ہیں اگر وہ واقعی بوڑھے بزرگ شہریوں کی خدمت اور ان کو درپیش مسائل کو ایک مشن سمجھ کر حل کرے۔
٭…٭…٭