بدعنوانی وناجائز منافع خوری معاشرتی ناسور
دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے 5سوروپے سے لے کر 5ہزار روپے کے ہر سبز ونیلے کرنسی ’’ نوٹ‘‘ پر لکھا ہوتا ہے کہ ’’رزق حلال عین عبادت ہے‘‘۔ ایسا ملک جس کی بنیاد اسلامی نظریہ پر رکھی گئی ہو ۔ تقسیم کی وجہ سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے خون سے جس ملک کی آبپاری کی گئی ہو، وہاں آج رشوت ستانی ، لوٹ مار،ناپ تول میں ہیرا پھیری، چوربازاری اور ناجائز منافع خوری راج کررہی ہے حیران کن بات یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں جہاں ملک کے ہر شہر کے ہرکونے و گلی میں پانچ وقت اذان کی آواز گونجتی ہو۔ مساجد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے والوں سے بھری دکھائی دیتی ہوں۔ گھر وں میں میلاد شریف و قرآن خوانی کی محفلیں سجائی جاتی ہوں۔ صوفیا کرام کے مزارات و خانقاہوں پر نذرانہ عقیدت پیش کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہو۔ تاجروں کی اکثریت اپنے نام کے ساتھ الحاج یا حاجی لکھتی ہو۔ نماز کے اوقات میں سرکاری ملازمین کی اکثریت نماز باجماعت پڑھتی ہو۔ وہاں ان تمام برائیوں کی موجودگی سے ثابت ہے کہ ہم سب منافقت اور ملمع سازی کے اس درجہ پر فائز ہیں جس کے بعد درجہ بندی ختم ہوجاتی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرے میں پستی و گراوٹ کا احساس ہی باقی نہ رہے اس لیے اصلاح کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ چند ہزار روپے مالیت کا موبائل فون چھننے کے لیے ڈاکو قتل کرنے لگے ہیں۔ چوری وڈکیتی کی خبریں ہر شہر میںمعمول بنتی جارہی ہیں۔ ڈاکوئوں کے حوصلے اس قدر بلند اور وہ اتنے بے خوف ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنی واردات کی سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈنگ کی بھی پرواہ نہیں رہی ۔ وجہ یہ ہے کہ معاشرے سے سزا و جزا ناپید ہوچکے ہیں۔ عدالتوں میں عدل صرف بااثر اشرافیہ یا دولت مند طبقات کیلئے ہے ۔ رہ گیا عام شہری تووہ اپنے ساتھ ہر طرح کی ناانصافی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر رہا ہے ۔ ورنہ جس دن اس نے قسمت کی بجائے اصل’’ قصور وار‘‘ کو پہچان لیا تو پھر وہ انقلاب کے دروازے پر دستک دیتا نظر آئے گالیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔یہ بات نہ تو دینی جماعتوں کی قیادت کرنے والے علماء صاحبان کو سمجھ آرہی ہے نہ ہی موروثیت کو جمہوریت کا نام دے کر ملک پر حکمرانی کرنے والے مخصوص خانوادوں کو ا س کا ادراک ہے ، ورنہ یہ سب اسی طبقہ اشرافیہ ہی کا کیا دھرا ہے جس کی دولت کی ہوس نے پورے معاشرے کو ایک ایسے جنگل میں تبدیل کردیا ہے جس کا ہر باسی دوسرے کی گردن پر سوار ہوکر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ وہ جان چکا ہے کہ محنت اور ایمانداری سے اسے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ، اس کے پاس باعزت زندگی گزارنے کیلئے دولت کا ہونا ضروری ہے، ایمانداری سے تو وہ اپنے بیوی بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتا تعلیم وطبی سہولتیں تو بہت بعد کی بات ہے۔
ملک میں ہر پندرہ روز کے بعد پٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں۔ اس پر ٹیلی ویژن چینلوں کے تبصروں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے روز قیامت آن پہنچا ہے ۔ شک ہونے لگتا ہے کہ شاید دوسرے روز سڑکوں پر ٹریفک کا نام ونشان نہیںہوگا۔ لوگ مہنگا پٹرول خریدنے سے انکاری ہوجائیں گے لیکن اس قدر مہنگے پٹرول کے باوجود سڑکوں پر ٹریفک کی روانی الٹا مہنگائی کا منہ چڑارہی ہوتی ہے، کسی محفل میں بیٹھ جائیںتو ہاتھوں میںلاکھوں روپے مالیت کے موبائل ٹیلی فون کی نمائش کرتے ہوئے دوست احباب مہنگائی کا رونا روتے ہیں جھوٹ مکرو فریب کو ہم سب نے خود پر اس انداز سے طاری کرلیا ہے کہ سچ کی اہمیت ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ ہم دوسروں کو عہدہ و رتبہ یا دولت کی بنیاد پر عزت دیتے اور غریب کو ا س کی غربت کی وجہ سے دھتکارتے ہیں ۔ شرافت ، ایمانداری یا کردار کی اچھائی ہمارے نزدیک بے معنی ہوچکے ہیں۔ ہر طرح کی بدعنوانی میںملوث ہونے کے باوجود خود کو سب سے ایماندار ثابت کرنے اور اپنے علاوہ سب کو بے ایمان بتانے کی علت اب ہماری پہچان ہے، ویسے بھی دوسروں سے گفتگو ’’بہتان ‘‘سے شروع ہوتی ہے اور ’’انقلاب ‘‘پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ معاشرے کو باہم تقسیم کرنے میں سیاسی جماعتوں نے الگ سے کردار اداکیا ہے ۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے ٹاک شوز میں مخالفین پر لوٹ مار اور کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں ۔ یہ سب سنتے سنتے کان پک چکے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ عوام اپنے منتخب نمائندگان کی اصلیت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ان کی صفائیاں دینے کے چکر میں اپنے قریبی دوستوں سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ باہمی تقسیم کا یہ عمل اب اتنا گہرا ہوچکا ہے کہ اچھائی اور بدی کی جگہ پسند نہ پسند نے لے لی ہے ۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جو چند دہائیاں پہلے پاکستان سے بہت پیچھے تھے اب ترقی کی دوڑ میں بہت آگے جاچکے ہیں۔ لیکن ہم ان نعروں کے اسیر بنادیے گئے ہیں جو خواب تو ہوسکتے ہیں لیکن ان پر تاقیامت عمل ممکن نہیں۔ اس کے باوجود ہمارے سیاسی لیڈران عوام الناس کو خواب دکھا کر اپنی دولت میں دن دوگنی رات چگنی اضافہ کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری وہ سیاسی اشرافیہ جو اپنے بچوں کو مغربی ممالک میں تعلیم کے حصول کیلئے بھیجتی ہے۔ ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے انہیں غیر ملکی شہریت دلواتی ہے ۔ قومی خزانے سے لوٹا ہوا سارا مال باہر کے بینکوں میںٹھکانے لگاتی ہے ۔یہ سیاسی اشرافیہ جو ہر جماعت میںموجود ہے ادویات سے لے کر چینی کے کارخانوں تک ہر وہ کاروبار و صنعت ان کی ملکیت ہے ۔جس کے ذریعے یہ اپنے ناجائز منافع میں مزید اضافہ کرنے کے لیے مل کر قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، یہی اضافہ پاکستان کی 95فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے اور اسی اضافے کے خلاف عوام کے احتجاج کو یہ اس انداز سے اپنی سیاسی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ عوام انہیں اپنا مسیحا سمجھتے رہیں اور اضافہ بھی برقرار رہے۔ گزشتہ حکومتی ادوار دیکھ لیجیے ہر دور میں اسی طرح عوام کا استحصال کیا جاتا رہا۔لیکن اب ناجائز منافع خوری اور بدعنوانی کی آگ اس سطح پر آچکی ہے کہ پاکستان کے سلامتی تک اسکی آنچ پہنچنے لگی ہے۔ملک و معاشرے کے اندر پھیلنے والی بدعنوانی اور ناجائز منافع خوری کے ناسور کا اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ بیماری ملک کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس کا علاج نہ تو ’’کرنسی نوٹوں‘‘ پر اخلاقی جملے لکھنے سے ممکن ہے نہ ہی روایتی قسم کے قائم کیے گئے انسداد رشوت ستانی جیسے محکموں سے آج تک اس بیماری کی روک تھام ہوسکی ہے۔ اس کے لیے ’’جراحت‘‘ ناگزیر ہے۔