نثار عثمانی

مسٹر بھٹو غصہ سے بھرے ہوئے لب و لہجہ میں فرمارہے تھے کہ میں بہت بڑا ایجی ٹیٹر ہوں، میں نے بڑے جلسے کئے ہیں، بہت جلوس نکالے ہیں، بڑی ریلیاں کی ہیں، بہت دن اور مہینے منائے ہیں لیکن میں آج تک اپنے بازو پر سیاہ پٹیاںباندھ کر کسی کے گھر نہیں گیا مگر یہاں میں ایک عجیب منظر دیکھ رہا ہوں کہ آپ میری دعوت پر یہاں آئے ہیں اور آپ نے میرے ہی خلاف اپنے بازوئوں پر احتجاجی پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ جناب بھٹو کے تیور بتارہے تھے کہ شاید وہ پریس کانفرنس سے اٹھ کرچلے جائیں یا کسی اور رد عمل کا اظہار کریںکہ نثار عثمانی اپنی نشست سے اٹھے اور جناب بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سیاہ پٹیاں آزادیٔ صحافت کی حفاظت کے مقصد کی خاطر اپنی جماعت کے فیصلے کے تحت باندھی ہیں، یہ احتجاجی ہفتہ فلاں تاریخ کو شروع ہوا ہے اور فلاں تاریخ کو ختم ہوگا اور اس عرصے میں ہم اپنی جماعت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے سیاہ پٹیاں باندھ رہے ہیں۔ آپکی طرف سے ملاقات کی دعوت ہمیں کل شام موصول ہوئی ہے اس لئے آپ اس پر اس قدر برافروختہ نہ ہوں۔ جناب عثمانی کے انداز سے یہ احساس ہورہا تھا کہ وہ شاید اخبار نویسوں کی طرف سے مزید کسی سخت ردعمل کا اظہار کرینگے کہ انکی گفتگو میں قدرے وقفہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان ایڈیٹر عارف نظامی نے ایک سوال داغ دیا اور اس طرح اس وقت کے آمر اور شہری آزادیوں کی جدوجہد کے ایک سپاہی کے مابین یہ مکالمہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ جناب ضیاء الحق کے دور حکومت میں جناب نثار عثمانی مسلسل اور پیہم انکے آڑے آتے رہے اور جمہوریت کی بحالی، سیاسی جماعتوں کے احیاء اور جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے انعقاد کیلئے اپنا نقطۂ نظر تیز و تند پیرائے میں بڑی جرأت کے ساتھ بیان کرتے رہے۔
جناب نثار عثمانی کے بارے میں بعض دوستوں اور حلقوں کا یہ تاثر شاید درست نہیں ہوگا کہ انہیں کسی خاص سیاسی جماعت سے تعلقِ خاطر رہا، میں سمجھتا ہوں کہ جناب نثار عثمانی کا پہلا عشق پاکستان سے تھا، انہوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ شعوری طور پر کیا، انکے سب اہلِ خاندان ہندوستان میں تھے کہ وہ مشرقی پنجاب کے راستے، جہاںمسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا تھا، لاہور آئے، صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہونے کے بعد صحافت کی آزادی ان کا دوسرا عشق تھا، اس عشق کی بلاخیزی انکی عمر بھر کی جدوجہد کا عنوان ہے اور اس مقصد کیلئے وہ ایوب خان سے لیکر بے نظیر بھٹو تک سب حکمرانوں کے سامنے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک جرأت مند اور بے باک صحافی، ایک پُرخلوص انسان اور سچے ٹریڈ یونینسٹ تھے، وہ پاکستان کو جمہوریت اور شہری و صحافتی آزادیوں کا گہوارہ بنتے دیکھنا چاہتے تھے۔ افسوس کہ انہیں اپنی زندگی کے آخری حصہ میں جب طویل آمریتوں کے بعد ایک منتخب حکومت بر سرِ اقتدار آئی، ضابطۂ اخلاق اور ہتکِ عزت کے نام پر صحافت کی آزادی کو پابندِ سلاسل کرنے کیلئے اربابِ حکومت کے عزائم کے بارے میں شدید گُھٹن سے دوچار ہونا پڑا اور اس گُھٹن اور حبس کا شکار ہوکر وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ جناب نثارعثمانی جہاں صحافت کی آزادی کے علم بردار تھے اور انہوں نے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں آزادی کی یہ مشعل مضبوطی سے تھامے رکھی وہاں وہ زرد صحافت کو ملک و قوم کے لئے زہرِ قاتل تصور کرتے تھے، ان سے آخری ملاقات آواری ہوٹل کے عشائیے میں ہوئی جو جناب حسین حقانی نے سیکرٹری اطلاعات کا منصب سنبھالنے کے بعد ترتیب دیا تھا۔ اس موقع پر نثار عثمانی نے آزادیٔ صحافت کا وہ منشور ایک بار پھر زور دار الفاظ میں بیان کیا جو عمر بھر انہیں عزیز رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ اخباری کارکنوں کے سچے دوست تھے، آج ملک میں ہزاروں اخبار نویسوں اور اخباری کارکنوں کے گھروںمیں چولہے ان کی انتھک جدوجہد کے باعث روشن ہیں۔ مجھ پر ہمیشہ ان کی نظر کرم رہی، میں احسان فراموشی کروں گا اگر اس بات کا ذکر نہ کروں کہ میرے بھائی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن قاضی غیاث الدین جانباز جنرل ضیاء الحق کے دور میں سالہا سال قیدوبند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، وہ کسی ایک مقدمہ میں رہائی پاکر باہر آتے تو دوسرے مقدمہ میں گرفتار کرلئے جاتے انکی آخری رہائی اس وقت کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی سے جناب نثار عثمانی کی ملاقات کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ عثمانی صاحب اس وقت تک جنرل جیلانی کے کمرے سے باہر نہیں آئے جب تک انہوںنے یہ اطمینان نہیں کرلیا کہ غیاث الدین جانباز کو سرگودھا جیل سے رہا کردیا گیا ہے اور انہوں نے جنرل جیلانی سے یہ آرڈر بھی کرایا کہ انہیں کسی اور مقدمہ میں اُن کی پیشگی منظوری کے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
جناب نثارعثمانی نے میجر (ر) ابن الحسن کی یاد میں منعقدہ تقریب میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرکے دائیں اور بائیں کے امتیاز کی جو دیوار توڑدی تھی، سی پی این ای نے انہی کی پیروی میں ان کی یاد میں تقریب منعقد کر کے ایک اچھی روایت کو زندہ کردیا ہے، یہ ایک ایسی روایت ہے، ہمارے معاشرے میں جس کے احیاء کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔
ایک شعر جناب نثار عثمانی کے حضور نذرانۂ عقیدت کے لئے پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
کس سے تمہیں تشبیہ دوں یہ سوچ رہا ہوں
ایسی تو جہاں میں کوئی صُورت بھی نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ختم شد)