گلدستہ پاکستان اور اقلیتی برادری

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جہاں مسلمانوں کیلئے الگ ملک کا مطالبہ کرتے تھے وہیں انہوں نے قیام پاکستان کے بعد اس ملک میں اقلیتوں کے حقوق پر بھی بہت زور دیا اور ثابت بھی کیا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے ضامن ہیں۔ انہوں نے پاکستان کا پہلا وزیر قانون ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے جوگندر ناتھ منڈل کو بنایا۔ حضرت قائداعظم نے اپنی متعدد تقاریر میں فرمایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کی جائیگی۔ پھر جب پاکستان بنا تو آپ نے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیت کی مناسبت سے رکھوایا اور بتایا کہ پاکستا ن کے جھنڈے میں سبز رنگ مسلمانوں کی اور سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرے گا۔جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنانا آپکے وژن ہی کی عکاسی کرتا ہے۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد ہندو اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے پاکستا ن کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اور پاکستا ن میں چیف جسٹس کے عہدے پر بھی ہندو اور عیسائی اور دیگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ فائز رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم نے جو پہلی تقریر کی وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھی بلکہ غیر مسلموں اور اقلیتوں کے بارے میں تھی جنہیں حضرت قائداعظم نے یقین دلایا کہ پاکستان بننے کے بعد انہیں پریشان ہونے کی قطعاً ضرور ت نہیں ہے۔انہوں نے اقلیتوں کو یقین دلایا کہ پاکستان میں انہیں مذہب، عقیدے، جان و مال اور ثقافت کا تحفظ حاصل ہوگا، کسی بھی امتیاز کے بغیر ہر اعتبار سے وہ پاکستان کے شہری تصور ہوں گے۔گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رہنما کامران مائیکل سے ملاقات ہوئی تو اس پر سیر حاصل گفتگو ہوئی کہ پاکستان میں اقلیتیں بھارت کی نسبت محفوظ ہیں۔
یادہانی کرواتا چلوں کہ کامران مائیکل پنجاب کی تاریخ کے پہلے مسیحی یا اقلیتی وزیر خزانہ رہے ہیں اور یہ پاکستان کی سیاسی و سماجی روایت چلی آ رہی ہے کہ اقلیتی برادریوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے جس طرح کامران مائیکل وزیر خزانہ رہے پھر وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے اس طرح کی روایات کو جاری رہنا چاہیے۔ خیر بات ہو رہی تھی بھارت کے حوالے سے کہ وہاں عیسائیوں پر حملے ہو رہے ہیں، دلت برادری کو اعلی ذات کے ہندو پاؤں کی جوتی کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔ جس مندر میں دلت داخل ہو جائیں اس کو صاف کیا جاتا ہے بلکہ دلت افراد کو تو بھارت میں جوتیاں تک پہننے کی اجازت نہیں ہے کہ اس سے اعلی مذہبی ہندوؤں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں اقلیتی سیاسی کارکن ایوانوں کا حصہ ہیں۔
پیپلز پارٹی نے تو دلت ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی کرشنا کوہلی کو ایوان بالا کا حصہ بنایا ہے۔ پاک فوج میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افسران موجود ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں جنہوں نے ملک پر جان وا ر کر دھرتی کا قرض ادا کیاہے۔ گروپ کیپٹن سیسل چوہدری ہوں یا سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی انہوں نے پاک فضائیہ میں شامل ہو کر قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ماسٹر فائٹرکے نام سے مشہور سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی کو1965ء کی جنگ کے دوران بی-57 اڑانے پر ستارۂ وجرأت سے نوازا گیا۔ونگ کمانڈر مرون لیسلی مڈل کوٹ پاک فضائیہ کے ایک فائٹر پائلٹ تھے جنہوں نے اپنے ملک کے لیے جان دے دی۔ جب ہندوستانی فضائیہ نے 1965ء کی جنگ میں کراچی پر حملہ کیا تو مرون کو کراچی کے دفاع کے لیے ایک ایف 86 سیبر طیارے کے ساتھ روانہ کیا گیااور انہوں نے دشمن کے دو طیارے تباہ کردیے جس کی وجہ سے انہیں ڈیفنڈر آف کراچی کے ٹائٹل سے نوازا گیا۔
1972ء میں اسرائیل کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران وہ پاک فوج کی جانب سے اردن میں موجود تھے جہاں وہ ایک مشکل مشن کے دوران شہید ہوئے۔ پاکستانی فضائیہ کی تاریخ میں سیسل چوہدری کا نام ایم ایم عالم جیسے فائٹر پائلٹ کے ساتھ لیا جاتا ہے جنہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں دشمن کے کئی جہاز تباہ کئے۔
1965ء کی جنگ میں سیسل چوہدری نے دشمن کے تین طیارے تباہ کئے تھے اور ان کی بہادری اور جرأت کی وجہ سے پاک فوج کی جانب سے انہیں ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ 1971ء کی جنگ میں ایک معرکے میں زخمی ہونے کے باوجود سیسل چوہدری نے کئی فضائی مہمات میں حصہ لیا اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ان کی دلیری کی وجہ سے پاک فوج نے انہیں ستارہ بسالت سے نوازا۔
جولین پیٹر کا نام بھی پاک فوج کی تاریخ میں امر رہے گا کہ وہ پاکستان کے پہلے مسیحی تھے جو پاک فوج میں میجر جنرل کے عہدے پر پہنچے۔ انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی حصہ لیا اور 2004ء میں ریٹائر ہوئے اور انہیں ملک کی خدمت کرنے کے صلے میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ الغرض اب بھی پاک فوج میں ایسے افراد موجود ہیں جن کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے اور وہ وطن پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ لئے اپنی خدمات دے رہے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے چاہے مسیحی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں یا کسی بھی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں یہ سب پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور پاکستان بھی ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسی لئے حضرت قائداعظم نے قومی جھنڈے میں سفید رنگ کو اقلیتوں سے مخصوص کیا تھا تا کہ ان کی اہمیت کا اندازہ آنے والی نسلوں کو بھی ہو کہ ان کے بغیر ملک کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔
اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ افراد بھی مسلمان شہریوں کی طرح اس گلدستے کا حصہ ہیں جسے پاکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہ پاکستان کی برادریاں ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے. یہ برادریاں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یہ پاکستان کی پہچان ہیں جنہوں نے پاکستان کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ان کے اس کردار اور قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔