مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ہندوستانی افواج کے ہاتھوں بدترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نریندرا مودی/بی جے پی/آر ایس ایس حکومت نے اپنے نازی فاشسٹ نظریے کے مطابق دہشت گردی اور وحشیانہ قتل و غارت کا راج شروع کیا ہے۔ کشمیری ہٹلر (مودی کے طور پر دوبارہ جنم لینے والے) کے ہاتھوں تازہ ترین ہولوکاسٹ کا شکار ہیں۔
بھارتی فوجیوں نے صرف دسمبر دو ہزار اکیس میں مقبوضہ جموں کشمیر میں دو سو دس کشمیریوں کو قتل کیا۔ پینسٹھ کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے جعلی مقابلوں میں قتل کیا ج بھارتی فوجیوں نے اکتیس شہریوں کو قتل کیا۔
مقبوضہ وادی میں "مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال" کے نتیجے میں 487 افراد زخمی ہوئے، جب کہ گزشتہ سال بھارتی فوجیوں اور پولیس کے چھاپوں اور کریک ڈاؤن میں انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز سمیت 2,716 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتار افراد میں سے زیادہ تر کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، یعنی پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (UAPA)۔بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں 2021 کے دوران میں سڑسٹھ رہائشی مکانات کو تباہ کیا تھا۔
ہندوستانی حکام نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں 45 ہفتوں تک نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی اس کے علاوہ 2021 میں محرم کے جلوسوں اور عید میلاد النبی کے اجتماعات جیسی دیگر مذہبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی۔ مزاحمتی رہنماؤں کو "جھوٹے مقدمات" میں دہلی کی تہاڑ جیل میں حراست میں لیا گیا ہے، کاپے قوانین PSA اور UAPA کے تحت 4,000 سے زیادہ لوگوں پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انہیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی دیگر جگہوں پر مختلف جیلوں میں بند کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت نے 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے سات دہائیوں سے کشمیر کی خصوصی خودمختاری چھین لی، تب سے اب تک بھارتی فوجیوں، نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں نے 515 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تینتیس برس کے دوران 95,948 کشمیریوں کو بھارتی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔
لندن کی ایک قانونی فرم اسٹوک وائٹ نے 18 جنوری 2022 کو برطانوی پولیس کے پاس ایک درخواست دائر کی جس میں ہندوستانی وزیر دفاع، آرمی چیف اور چند دیگر ہندوستانی حکومتی عہدیداروں کی مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم میں مبینہ کردار پر گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔
لاء فرم کے مطابق اس نے میٹرو پولیٹن پولیس کے وار کرائمز یونٹ کو وسیع ثبوت جمع کرائے جس میں یہ دستاویز کیا گیا کہ کس طرح بھارتی افواج زیر کمانڈ جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے کارکنوں، صحافیوں اور شہریوں کو تشدد، اغوا اور قتل کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس فرم کی رپورٹ 2020 اور 2021 کے درمیان لی گئی 2,000 سے زیادہ شہادتوں پر مبنی تھی۔ درخواست میں آٹھ نامعلوم سینئر بھارتی فوجی اہلکاروں پر جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا، "اس بات پر یقین کرنے کی مضبوط وجہ ہے کہ ہندوستانی حکام جموں اور کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر تشدد کر رہے ہیں"۔
لندن پولیس سے درخواست "عالمی دائرہ اختیار" کے اصول کے تحت کی گئی تھی، جو ممالک کو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم پر ہندوستانی حکام کے خلاف بیرون ملک قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
سٹوک وائٹ میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر مسٹر ہاکان کاموز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے اور بالآخر ان اہلکاروں کو جب بھی وہ برطانیہ میں قدم رکھیں گے گرفتار کرنے پر مجبور کرے گی۔ نامزد بھارتی اہلکاروں میں سے کچھ کے مالی اثاثے اور دیگر اہم چیزیں برطانیہ ہے زیر اثر ہیں۔
مسٹر ہاکان کاموز نے کہا، "ہم برطانیہ کی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے ہوئے تحقیقات کرے اور ہماری طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ظالموں کا احتساب کیا جائے۔"پولیس کو درخواست آزاد جموں و کشمیر کے رہائشی ضیاء مصطفیٰ کے اہل خانہ کی جانب سے دی گئی تھی جو 2021 میں بھارتی حکام کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنے تھے، اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد احسن اونٹو کی جانب سے، جنہیں اس سے پہلے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کشمیریوں اور بین الاقوامی حقوق کے گروپوں نے طویل عرصے سے ہندوستانی فوجیوں پر نئی دہلی سے حکمرانی کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ منظم بدسلوکی اور گرفتاریوں کا الزام لگایا ہے۔ 2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹوں کی ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ قانونی فرم کی تحقیقات نے تجویز کیا کہ کرونا وائرس وبائی امراض کے دوران بدسلوکی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کی رپورٹ میں 2021 میں ہندوستان کے انسداد دہشت گردی حکام کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے سب سے ممتاز کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔
خرم پرویز ایک مشہور انسانی حقوق کے بڑے علمبردار ہیں جو دنیا کے سب سے بڑے عسکری علاقے یعنی مقبوضہ کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔ پرویز متنازعہ علاقے میں بڑے پیمانے پر قابل احترام انسانی حقوق کے گروپ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں، وہ ایشین فیڈریشن اگینسٹ انوولنٹری ڈسپیئرنس کے چیئرمین بھی ہیں۔(جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024