گم گشتہ پیشے

سکول سے واپسی پر کبھی کبھار گلی میںایک مخصوص قسم کے کیمیکل کی بو سونگنے کوملتی ۔دور سے ہی نظر آجاتا کہ ایک کاریگر نے زمین میں چھوٹا ساگڑھا بنا کر اس میںکوئلے دھکائے ہوئے ہیں۔ پیتل ،تانبے کے گھریلو برتنوں کاایک چھوٹا سا ڈھیراس کے پاس لگاہوتا۔ایک مخصوص قسم کے مشکیزے میں ہار مونیم کی طرح ہوا بھرتا اور چھوڑتا جاتا،جس سے کوئلے مزید دہک جاتے ،ان پر پھر وہ کاریگر کوئی برتن گرم کرتا اور پاس پڑی ہوئی قلعی کی ایک چھوٹی سے ڈلی اس پر چاروں طرف لگاکر اس پر ایک سفید رنگ کا تھوڑا ساسفوف ڈالتا تو چاروں طرف دھواں پھیل جاتا۔ اتنے میں عجلت سے وہ روئی کا ایک گولا برتن پر پھیرتاتو بدشکل برتن بھی چاندی کی طرح چمک اٹھتے۔یہ سفوف ’’نوشادر‘‘ کہلاتا اور محلے بھر میں اس کی بوپھیلی ہوتی۔اس کے باوجود جب تک وہ کاریگر اپناکام ختم نہ کرلیتاہم بچوں کا وہاں سے ہٹنا محال ہوتا۔مفت میں ایسے لطف اندوز مناظرکہاں دیکھنے کو ملتے تھے۔عرصہ ہوا کسی کاریگر کو کسی گلی میں کوئی اڈا لگاکر بدرنگ برتنوں کونقرئی چمک اور نئی شکل دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔گویایہ پیشہ متروک ہوگیا۔
افغانستان سے کچھ لوگ آتے جنہیںاس وقت" پاوندے" کہاجاتا تھا۔ان کو اردو زبان پر بس اتنا ہی عبور تھاکہ"چاقو چھری تیز کرالو"یاوہ بمشکل کچھ بھائو تائوبھی بتالیتے۔کوڑے مارنے والی ٹکٹکی کی طرح کاان کا "گشتی کارخانہ"ہوتا۔جہاں چاہالگا لیا۔جب چاہا اٹھالیا۔دن بھر میں کتنے گاہک اور کتنے روپے ان کے مقدر میں ہوتے ،اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں لیکن بڑے صابرلوگ ہوتے تھے یہ ۔ یہی کمائی لے کر وہ سال میں کچھ وقت کیلئے واپس افغانستان چلے جاتے یہ منظر بھی ہمارے لئے لطف کا باعث بنتا۔ پھر یہ پیشہ یا صنعت بھی متروک ہوگئی ۔
ہماری سٹرک پر چوہدری خدابخش گجر مرحوم کی گلی کی نکر پر ایک عمر رسیدہ خاتون اپنے گھر میں رہائش پذیر ہوکرتی تھیں۔نام یاد نہیں البتہ لوگ اسے عرف عام میں "مائی مٹھے چول"(چاول)کہاکرتے تھے۔ اس کے مکان میں ایک دکان تھی جہاں اکثرتانگے اور گھوڑے دیکھنے کو ملتے۔جونہی کوئی گھوڑا اس دکان میں موجود کاریگر کے آگے آتاتووہ کوچوان کی مددسے پٹہ ڈال کراسکی ایک ٹانگ اٹھالیتاکانٹ چھانٹ کرکے مخصوص قسم کے لوہے کے کیلوں کی مدد سے نعل لگادیتا۔جب تک وہ حصول رزق کیلئے یہ کام جاری رکھتا ہم سکول کے بچے تب تک وہیں اس حیرت زاکودیکھتے رہتے ۔تانگے ختم ہوگئے تو نعل لگانے کا پیشہ بھی گم گشتہ ہوگیا۔رہے گھوڑے تو ’’زندہ دلان‘‘ کب کے نے اپنے معدوں میں اتارلئے۔
سب شہروں کی طرح ہمارے شہر میں بھی سڑکوں کے کنارے مداری اپنا اپناتماشہ دکھاتے شہر میں سب سے بڑا مداری ’’سینڈوسپاں(سانپوں) والا‘‘ تھا ۔ جس کی پٹاریوں میں سچ مچ کے کئی انواع واقسام کے سانپ پھنکار رہے ہوتے جنہیں دوران مداری وہ کبھی کبھی پٹاری سے نکال کراپنے گلے میں ڈال لیتا۔ گفتگو کا ایسا ماہر اور ساحر کہ مجمع ہمہ وقت مسحور کئے رکھتا۔کسی ٹھگ یا چور کا قصہ سناتا تو لوگ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگتے۔لگتا مداری قصہ گوہے۔گردن سے جب سریا ٹیڑھا کرتا تو سینڈو کی بجائے تماشائیوں کی آنکھیں ابل آتیں۔دانتوں سے سائیکل اٹھا لینے اور منہ سے آگ نکالنے کے فن میں طاق یہ کسرتی بدن کا سینڈو ایک دن اپنے ہی پالے ہوئے سانپ کے کاٹے سے جاں بحق ہواتوپھر شہر میں اس کا ثانی تو کیا کوئی دوسرا مداری بھی نہ جم سکا۔اور اس کی موت کے ساتھ ہی شہر کی ثقافت کا یہ تحفہ بھی تمام ہوا۔
ریلوے سٹیشن کے ٹی روم کے باہر کچھ فوٹو گرافر اپنے اپنے کیمرے سجائے موجود ہوتے۔جو حسب فرمائش سردلیپ کمار کا اور دھڑ تصویر بنوانے کا لگا دیتے ۔ان دنوں باقاعدہ اور معروف فوٹو گرافر سے بھی تصویر بنوانے میں کم وبیش تین دن لگ جاتے تھے لہذا ایمر جنسی تصویر حاصل کرنے کے خواہش مند یا شوقیہ تصویر یں بنانے والے ادھر کا رخ کرتے۔زمانے کی جدتوں نے یہ صنعت بھی ختم کر ڈالی وقت نے جہاں یہ صنعتیں اور ان سے وابستہ افراد کا معاشی قتل عام کیا وہاں لوگوںسے اور سستی خوشیاں بھی چھین لیں ۔کہیں کہیں ،کبھی کبھی سوشل میڈیا پہ ان صنعتوں اور ان کاریگروں سے ملاقات ہوجاتی ہے ورنہ یہ تو پیشے کب کے گم گشتہ ہو چکے۔ایسے ہی گلیوں میں گھوم پھر کر سلائی مشینیں ٹھیک کرنے ،لالٹین صاف کرنے ،چینی کے لچھے بنانے کاریگروں کو زمانے کی رفتار پائوں کے نیچے روند کر چلی گئی ۔سائیکل کرائے پر دینے کا ایک کاروبار بھی تھا جو جس سے بہت سے لوگوں کا روزگاروابستہ تھا،اب ختم ہوچکا ہے ۔فلم انڈسٹری تک کا جنازہ اٹھ چکا ،پرانے زمانوں بلکہ صدیوں سے جو صنعت یا دھندہ زندہ ہے وہ بقول آغاشورش ’’خودفروشی‘‘یاضمیر فروشی ہے ۔یا پھر بقول پروفیسروارث میرخوشامدکے دھندے کوزوال نہیں۔یہ کسی انسان کو خون میں وراثت کی طرح ملتا ہے۔یہ نسل آج کل سیاسی ومذہبی جماعتوں میں بکثرت نظر آتی ہے ۔ہر دور کے آقاغلام ابن غلام /ہر عہد کی تاریخ چند سودائی
٭…٭…٭