من کی باتیں

گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی اسلام آباد کے رئیل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے سردار تنویر الیاس نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کی جس میں پی ٹی آئی پاکستان کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی جن کی’’ رائے ‘‘کو عمران خان اور پارٹی میں اہم سمجھا جاتا ہے،ان کے ساتھ امور کشمیر کے وفاقی وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور موجود تھے،گلگت بلتستان کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے لئے بھرپور جدوجہد کی بلکہ مسلم لیگ کی قیادت پر بھرپور تنقید کی،اس تناظر میں آزاد کشمیر کی سیاست اور ہونے والے الیکشن کے حوالے سے ایک بڑی خبر ہے،یقینا وزیراعظم عمران خان نے ’’Go Head‘‘کا سگنل دیا ہو گا،اس حوالے سے آزاد کشمیر میں بہت بحث چل رہی ہے،بلکہ ’’واسطی باغ‘‘سے محفوظ ترین حلقہ سمجھتے ہوئے سردار تنویر الیاس کو الیکشن میں اتارنے کی باتیں ہو رہی ہیں،پہلی بات تو ہے کہ ساری کہانی میں حقیقت کا رنگ تب بھرے گا جب ’’سردار تنویر الیاس ‘‘پنجاب کے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کی حیثیت سے استعفیٰ دے کر باقاعدہ پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے۔یقینا شمولیت پارٹی کے عہدے داروں کی موجودگی میں ہو گی،سردار تنویر الیاس اس حوالے سے محنت کر رہے ہوں گے،ان کے ساتھ الیکٹ ایبل امیدوار شامل ہوں گے تا کہ پارٹی کو آذاد کشمیر میں واضع’’ مینڈیریٹ ‘‘دلایا جائے۔حقیقت حال اور گرائونڈ ری ایلیٹی صرف اتنی ہے کہ وفاق میں ڈھائی سال سے پی ٹی آئی کی
حکومت کے باوجود آزاد کشمیر میں کوئی بڑا پاور شو نہ کر سکی۔پی ٹی آئی آذاد کشمیر میں واضع اختلاف ہیں،’’بیرسٹر سلطان محمود ‘‘متحرک اور بھر پور کردار ادا کر رہے ہیںمگر ان کا مورال ’’گیم ونر ‘‘والا بالکل نہیں ہے،شاید وفاق سے جس حمایت تعاون اور سرپرستی چاہتے ہیںوہ نہیں مل رہی۔اگر صرف دو عددملاقاتوں کی تصویر اور اس میں ’’باڈی لیگویچ‘‘کو بغور دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیا چاہتے ہیں؟۔گذشتہ دنوں ’’بیرسٹر سلطان محمود ‘‘کی ون آن
ون میٹینگ اور گذشتہ دنوں سردار تنویر الیاس کی مشترکہ میٹینگ، سردار تنویر الیاس ملاقات میں جوش و جذبہ آس اور امید سے بھرپور ملاقات تھی مگر اس کی کامیابی کا ’’Follow Up‘‘آنے والے دنوں میں ان کی کارکردگی سے ہو گا کہ کتنے سیاسی قد آور ان کی وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے یا پارٹی میں جاری گروپ بندی میں کتنی کمی آئے گی۔1985 ء آزاد کشمیر الیکشن میں ایک نئی پارٹی ’’تحریک عمل‘‘برگیڈئیر حیات خان کی پانچ سالہ کارکردگی کی وجہ سے مسلم کانفرنس کی 19 نشستوں کے مقابلے میں 14 ممبران اسمبلی کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔مجاہد اول سردارعبدالقیوم نے ان کے ساتھ مل کر حکومت
بنانے کی پیشکش کی تھی مگر برگیڈئیر حیات خان نے انکار کیا تھا۔سیاست میں سرمایہ اور برادری کی بنیاد پر لوگ آئے اور کامیاب ہوئے۔1985 ء میں پاکستان کے غیر جماعتی الیکشن میں مری کہوٹہ سے خاقان عباسی آئے اور کامیاب ہوئے اور مری کی تعمیر و ترقی کے لئے عملی اقدامات کے لئے گذشتہ 40 سال سے مری کہوٹہ میں خاقان عباسی کا نام زندہ ہے۔’’سردار تنویر الیاس ‘‘یقینا پاکستان کے
’’پاور ڈورز ‘‘میں ایک توانا آواز ہیں۔ پاکستان کے 65% حصہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی ہیں۔اسلام آباد کے کاروباری حلقوں، پاکستان کے سرمایہ کاروں اور بیرون ممالک میں ان کا ایک اچھا تعارف اور نام ہے۔آزاد کشمیر کی آبادی شاید 4 ملین (40 لاکھ) ہو گی،مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کو چھوڑ کر جو کہ12 انتخابی حلقے پاکستان میں ہیں۔29 حلقے آزاد کشمیر میں ہیں،اگر فی کس انتخابی حلقے میں کامیاب امیدوار 20 ہزار ووٹ لیتا ہے تو چھ سے سات لاکھ ووٹرز کا نمائندے 29 ممبران اسمبلی ہوتے ہیں۔اس طرح پاکستان میں دو سے تین ہزار ووٹ حاصل کرنے والا ممبر اسمبلی ،پانچ کشمیر کونسل کے ممبران ہوتے ہیں۔پاکستان کے ایک ڈویژن سے کم آبادی کا علاقہ گذشتہ 73 سالوں سے آس اور امید پر ہے کہ ان کے حالات کب اور کیسے تبدیل ہوں گے؟۔یقینا ریاست جموں کشمیر کی ایک متنازعہ حیثیت کی وجہ سے پاکستان یا بیرون ملک سے سرمایہ کاری آ نہیں سکتی۔مگر بھارت نے تو ساری دنیا کو دعوت دی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کریں۔اقوام متحدہ کی ’’مردہ قراردادیں‘‘مزید 73 سال پڑی رہیں اور آزاد کشمیر کے نوجوان اپنے سنہرے مستقبل کے خواب لے کر چلے جائیں۔’’ذارا نم ہو تویہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘آزاد کشمیر کے پسماندہ ترین علاقے سے نصف صدی قبل ’’سردار الیاس خان ‘‘نے روایتی حالات سے بغاوت کر کے سعودی عرب گئے،اللہ تعالیٰ نے ان کو انکی محنت کا ثمر عطا کیا۔آج پاکستان اور آزاد کشمیر کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیںکشمیریوں کا فخر اور اعزاز ہیں۔سردار یاسر الیاس چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ہیں۔جہاں صرف اسلام آباد کے 7000 ٹیکس ادا کرنے والے بیٹھے ہیں ۔اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دیکھا رہے ہیں۔1985 ء میں آزاد کشمیر کے الیکشن کے موقعے پر جی- سیکس / ٹو کے ارم کیفے میں مسلم کانفرنس کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس تھا ،مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اور پارٹی صدر سکندر حیات بھی شامل تھے،مرکزی قائدین بھی تھے۔ہر مقرر اپنی تقریر میں کہتا کہ صدرجماعت سکندر حیات لیٹ آئے۔سکندر حیات نے جواباً اپنی تقریرمیں کہا کہ سارے امیدوار ٹکٹ اور مرکزی راہنما یہ کہتے ہیں کہ سردار سکندر حیات دیر سے آئے مگر کوئی دیر سے آنے کی وجہ نہیں پوچھتا،تو انھوں نے کہا کہ کسی دوست نے پرانی جیپ سفر کے لئے دی تو نکیال سے نکلا تو ڈیزل ختم ہو گیا۔پھر ٹائر خراب ہو گیا،پھر جیپ خراب ہوگئی،بڑی مشکل سے اسلام آباد پہنچا ۔1985 ء میں انتخابی سفر اُدھار گاڑی ،مفت کے پیٹرول اور پارٹی کے چندہ پر شروع کرنے والوں نے جدید گاڑیوں ،بڑے محل اور جائیدادیں بنا لی بلکے اپنی صدیوں کی بھوک مٹالی مگر آزاد کشمیر کی عوام آج بھی ڈسپرین کی گولی،صاف ستھرے پانی،تعلیم ،صحت اور روزگار کے لئے تڑپ رہے ہیں۔کوئی بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے،صرف آذاد کشمیر میں ٹوورازم کے فروغ،پانی سے بجلی پیدا کرنا ،زراعت،انڈسٹری اور جنگلات کے مواقعے پیدا کریں۔ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار آئیں،سڑکوں کو بہتر کریں۔’’آزاد کشمیر ‘‘پاکستان کا سویٹزرلینڈ بن جائے گا۔’’سردار تنویر الیاس‘‘سب سے پہلے آزاد کشمیر کی غربت ،پسماندگی ،تعلیم،صحت،ٹوورازم کے لئے مشورہ دیں۔آج آزاد کشمیر میں عمران خان کی طرف سے ’’صحت کارڈ‘‘کی تقسیم ایک انقلابی قدم ہے۔’’تبدیلی عوامی خوشحالی کے لئے ہو‘‘آزاد کشمیر کرپشن فری ریاست ہونی چاہئے۔کشمیر بنے گا پاکستان اور الحاق پاکستان کے نظریات کے ساتھ تعمیر و ترقی اور خوشحالی نصب العین ہونا چاہئے،سردار تنویر الیاس یقینا اس پر کام کریں گے۔