این آر او کرپٹ مافیا کیلئے بڑی سہولت؟
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں گھپلوں نے پوری قوم کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد غریب خاندانوں کی کفالت کرنا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام سے شروع ہونے والے پروجیکٹ کے ذریعے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر امداد کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت منتخب کئے گئے خاندانوں کے کوائف اکٹھا کرنے کے لیے مختلف اداروں نے اپنا رول ادا کیا۔ خواتین کی امداد کے لیے شروع کئے گئے اس پروگرام کے تحت مختلف موقع پر مناسب امداد کی فراہمی کے ذریعے ایسی خواتین کی مدد کی جاتی رہی جن کا کوئی بھی کمانے والا نہیں تھا۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں چاہے زلزلہ کے دوران امداد کا معاملہ ہو چاہے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے اکٹھی کی گئی رقوم کی تقسیم کا عمل ہو بالآخر ان خیراتی کاموں میں جہاں لوگ اپنی بساط سے بھی بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور غبن کی خبریں نیشنل نہیں بلکہ انٹرنیشنل نیوز کا حصہ بن جاتی ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سرکاری افسران کی امداد کے حوالے سے خبروں نے جہاں تفتیش کا نیا باب کھول دیا ہے وہاں ان لوگوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے جو لاکھوں روپے تنخواہ کے ساتھ ساتھ حکومتی مراعات سے پُرتعیش زندگی گزارنے کے باوجود منہ کالا کرنے سے بعض نہیں آتے۔ ان لوگوں کو ایسی سزا دینی چاہیے کہ پھر کبھی مستحق خواتین کے لیے مختص کی گئی رقوم کے غلط استعمال کا تصور بھی ختم ہوجائے۔ تفتیش کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے مگر بااثر بیوروگریٹس اس میں ضرور رکاوٹ بننے کا باعث بنیں گے۔ کیونکہ جیسے جیسے تفتیش کا عمل اور دائرہ کار بڑھ رہا ہے اس میں ایسے بہت سارے افراد کے نام سامنے آرہے ہیں جن کے چہرے بے نقاب ہونے سے ان کی پوری زندگی کا کیریئر دائو پر لگ گیا ہے بے نظیر انکم سپورٹ سے فائدہ اٹھانے والے افسران کو شو کاز نوٹسز جاری کر دیئے گئے ہیں اس میں صرف بلوچستان کے پانچ سو سرکاری افسران شامل ہیں ہمارے ملک میں چونکہ یہ تاثر عام ہے کہ لوٹ کھسوٹ کرو اور پکڑے جانے پر (تاخیری حربے) استعمال کرتے ہوئے لوٹ مار کے دوران اکٹھا کئے جانے والے مال میں کچھ حصہ دے کر (این آر او) حاصل کرلو۔ اس این آر او کی اختراع نے بڑی خرابی پیدا کی ہے۔ درحقیقت یہ این آر او لوٹ مار کرنے والے افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے اور مال مفت دل بے رحم سمجھ کر اس ملک میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے تاہم موجودہ حکومت نے لوٹ مار کرنے والے افراد کے گرد گھیرا تنگ کرکے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ جہاں غریبوں مسکینوں کے حصہ پر ڈاکے ڈالنے والا ایک گروہ بڑی سطح پر سرگرم ہے وہاں نچلی سطح پر بھی ان خواتین کی امدادی رقوم سے ہاتھ صاف کرنے والے افراد متحرک نظر آتے ہیں۔ حکومت وقت نے تو اپنی طرف سے ان غریب خاندانوں کی بہتر کفالت اور امداد کی فراہمی کی صاف شفاف طریقہ سے مکمل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کا سلسلہ شروع کررکھا ہے مگر چونکہ ہم من حاصل قوم کرپٹ ہیں اس لئے کسی نہ کسی جگہ دائو لگاہی لیتے ہیں۔ مختلف موبائل کمپنیوں کے سامنے امداد لینے والی ان خواتین پر ترس آتا ہے جب وہ اپنے شیرخوار بچوں کے ہمراہ سخت گرمی اور سردی میں طویل قطاروں میں امداد کے لیے موجود نظر آتی تھیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت امداد کی فراہمی کو فوری یقینی بنانے کے لیے اے ٹی ایم کی طرز پر کارڈ بھی بنائے گئے جس کے بعد لوٹ مار کرنے والے ایک اور گروہ نے جنم لیا جسے نوسرباز گروہ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں سے امداد حاصل کرنے والی سادہ لوح دیہاتی خواتین کے لٹنے کی خبریں اخبارات کی زینت بننا شروع ہوئیں یا پھر پتہ چلا کہ بینک سے کیش نکلواکر جانے والی خواتین کو راستہ میں امداد سے محروم کردیا گیا۔ اس تمام لوٹ کھسوٹ کے عمل میں کسی بھی خاتون میں اتنی سقت نہیں کہ وہ چند ہزار روپے کی خاطر متعلقہ تھانہ میں جاکر درخواست دے کر بعد میں تھانوں کے چکر لگانے پر مجبور ہو۔ نوسربازوں کے ہاتھوں لٹنے والی یہ خواتین جب خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتی ہیں تو ان کے اوپر اس وقت جو قیامت گزر رہی ہوتی ہے اس درد اور تکلیف کا اسے ہی اندازہ ہوتا ہے۔ غریب خواتین کے لٹنے کے واقعات میں اکثر ایسا دیکھنے کو بھی آیا ہے کہ غریب ان پڑھ خاتون بینک سے انگوٹھا لگا کر امداد لے کر نکلتی ہے تو بینکوں کے باہر طاق میں بیٹھے ہوئے نوسرباز ان خواتین کے انگوٹھوں پر لگی سیاہی دیکھ کر ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ بالآخر کامیاب واردات کے ذریعے اس کی امداد رقم سے اسے محروم کردیا جاتا ہے۔ قوم کی یہ مائیں اور بیٹیاں کب تک لٹتی رہیں گی۔ ہم نے بہت کم دیکھا ہے کہ کوئی نوسرباز گینگ پکڑا گیا ہو اور اسے صاف شفاف ٹرائل کے بعد قرار واقعی سزا ملی ہو چونکہ یہ نوسرباز کمزور شہادتوں کے باعث اس لئے جلد رہا ہوجاتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بھی مدعی بننے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ یہ لٹنے والا شریف آدمی تھانے کچہری کے دھکے کھانے سے ڈرتا ہے۔ وکیل کی فیس دے کر عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد شہادت کرانے کے عمل تک ویسے ہی تھک جاتا ہے۔ ان نوسربازوں اور فراڈیوں کے خلاف کاروائی ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے یہ تو صرف ایک واردات میں پکڑے جاتے ہیں جبکہ درجنوں نہیں سینکڑوں وارداتیں ایسی ہوتی ہیں جو تفتیشی آفیسر اس لئے نہیں منظر عام پر لاسکتا کہ ان کا کوئی مدعی تلاش ہوتا اور اس تمام عمل اور سزا سے بچنے کے لیے نوسرباز گروہوں کے پیچھے کام کرنے اور سپورٹ کرنے والے افراد انہیں باآسانی رہا کرالیتے ہیں۔ ایک گینگ موبائل کالز پر لوٹ مار کرنے کا ہنر رکھتا ہے جو مختلف لوگوں کو فون کے ذریعے ان کے بینک اکائونٹس کی معلومات حاصل کرنے کے دوران کمال مہارت سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا تعلق ان کے متعلقہ اکائونٹ والے بینک سے ہے اور یہ کال اُن کے اکائونٹ کو محفوظ بنانے کے لیے کی جارہی ہے۔ ناسمجھ افراد ان کالز کا شکار ہوکر گھر بیٹھے اپنے اکائونٹ خالی کرالیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دوسرا گینگ جو عوام کو موبائل کمپنی کا نمائندہ بن کر کال کرتا ہے اور انہیں انعام نکلنے کی خوشخبری دے کر انہیں لوڈ کرانے کے لیے کہتا ہے اس طرح اس گینگ کے شکاروں کی زیادہ تر تعداد بھی خواتین کے سامنے آتے ہیں اس جدید دور میں جہاں موبائل نمبر اور کال کرنے والے شخص کی کال کو ٹریس کرنا کوئی بڑی بات نہیں رہی مگر اس کے باوجود آج کے اس جدید دور میں یہ فراڈ کا عمل جاری ہے۔ بائیومیٹرک تصدیق کے بغیر اب سم نکلنے کا تصور ختم ہے مگریہ افراد کیسے فراڈ کئے جارہے ہیں اس کا پتہ کرنا اور سدباب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ انعامات اور امداد کے لالچ نے بھی اس قوم کو اندھا کردیا ہے مگر یہ مجبور لوگ کہاں جائیں کچھ تو راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں بھی اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں اور کچھ اپنی کم علمی اور جہالت کے باعث ان نوسربازوں کے ہاتھوں لٹنے پر خاموش ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جہاں ہر شعبہ میں کرپٹ عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کررہی ہے وہاں ان سادہ لوح قوم کی مائوں اور بیٹیوں کو لوٹنے والے نوسربازوں فراڈیوں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دلانا وقت کی سب سے بڑی اہم ضرورت ہے۔