قوم مسائل کی زد میں۔۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں
موجودہ حکومت نے بے روزگاری بھوک سے تنگ عوام کے لئے لنگر خانوں شیلٹر ہوم جیسی اسکیموں کا اعلان کر کے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح امیر غریب کے فرق کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے اسی طرح ہم پاکستان کو غریب معاشی بحران کی زد میں مبتلا ملک ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے ہی میڈیا چینلز پر ریٹنگ کی دوڑ میں بڑے بڑے انعامی شوز کی بھر مار جہاں ایک سوال پر ہزاروں لاکھوں کے مفت انعامات دیئے جاتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں اشرافیہ کے پاس لوٹانے کو بہت کچھ موجود ہے مگر غریب کو سر کس کیئے بغیر کچھ نہیں حاصل ہوسکتااگر ان شوز کا انعقاد کر نے والے اس غریب قوم کی فلاح بہبود کا کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کریں تو دنیا کی ریٹنگ سے زیادہ ان کو آخرت میں اس کا اجر ء حاصل ہوسکتا ہے ۔مگر اس ملک و قوم کی یہ بد قسمتی ہے کہ حکمران ہو ں یا فلاحی ادارے ہوں یا این جی اوز ہوں ہر ایک اس دنیا میں غریب کی مدد فوٹو سیشن کے بغیر انجام دینے سے قاصر رہا ہے جب تک ہم غریب کے مسائل کو دنیا میں نیلام نہ کریں اُس وقت تک غریب کی مدد ناممکن ہے ہم اس کی تذلیل کو فوٹو سیشن کا نام دیتے ہیں اگر اس ملک کی اشرافیہ بڑے بڑے نیلام گھر شوز کا انعقاد کر نے کے بجائے غریب بے بس عوام کی مدد بغیر فو ٹو سیشن بغیر نیلام گھر کے انجام دے سکیں تو ایک بے بس مجبور غریب انسان کی مدد کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کی عزت نفس کو بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے اور دوسرا اس نیکی اس ادا کا ثواب نیلام گھر شو سے زیادہ حاصل کیا جاسکتا ہے ہزاروں لڑکیاں کو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی عمر کا سامنا ہے اسی طرح لاکھوں بے روزگار نوجوان روزگار نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی جانب بڑھ رہے ہیں اگر کروڑوں روپیہ خرچ کر کے نیلام گھر شوز یا گیت سنگیت کی محفلیں سجائی جاسکتی ہیں تو کیوں اس رقم سے جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی سے محروم ہزاروں بچیوں کی شادی ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو چھوٹے چھوٹے بزنس کراکر دیئے جاسکتے ہیں بے گھر افراد کی مدد کی جاسکتی ہے ۔ماضی کی حکومتوں نے عوام کی فلاح بہبود کی جو اسکیمیں متعارف کرائیںیا اس وقت کی موجود حکومت نے جو روزگار کے نام پر کامیاب نوجوان اسکیم متعارف کرائی ان سے چند غریب افراد کو یقینا فائدہ حاصل ہوا ہوگا جبکہ ان اسکیموں کا بڑا حصہ سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوجاتا ہے موجود وزیر اعظم کی کامیاب نوجوان اسکیم میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس اسکیم سے محروم کر دی گئی ہے ا س اسکیم کا پر چار تو بہت کیا جارہا ہے مگر ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں کہ بینکوں میں یہ اسکیم بند کر دی گئی ہے جس سے لاکھوں بے روزگار نوجوان محروم رہے ہیںاس وقت ملک میں معاشی سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ غربت مہنگائی کا بحران بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے نوکری پیشہ حضرات ہوں یا مزدور پیشہ ہوں یا چھوٹے دکاندار حضرات ہوں ہر ایک کو گھر کا نظام چلانا مشکل ہوگیا ہے بچوں کی تعلیم علاج روٹی کپڑا پچاس ہزار کمانے والے کے لئے بھی پورا کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے گزشتہ دنوںوزیر اعظم نے تاجر برداری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنی ذاتی تنخواہ میں اپنا گھر بڑی مشکل سے چلا رہا ہوں اگر ملک کا وزیر اعظم اپنے گھریلومعاشی مسائل کو اشرافیہ کی زندگی گزارتے ہوئے پورا کرنے سے قاصر ہے تو سوچا جائے ایک غریب مزدور پیشہ افراد یا ایک سرکاری ملازم سمیت پنشن کی بنیاد پر اپنی زندگی بسر کرنے والے بزرگ حضرات کا چولہا کیسے چلتا ہوگا ۔بدقسمتی سے سیاستدان حضرات نے ہمیشہ اس قوم کی غربت کی تذلیل کی ہے کبھی ٹاک شو پر کبھی پارلیمنٹ میں تو کبھی بڑے بڑے جلسوں میں غریب کے مسائل کا مذاق اُڑایا گیا ہے بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں میں شیشے کے محل میں رہنے والے بیرون ملک اثاثے بنانے والے سیکڑوں کمپنیوں کے مالک ہوں یا کرکٹ کے میدان سے کروڑوں روپیہ بنانے والے نااہل کھلاڑی ہوں شوبز سے تعلق رکھنے والے حضرات ہوں بڑی بڑی این جی اوز جو غریب کے نام پر اشرافیہ سے بھیک مانگ کر اپنی ذات پر خرچ کرتی ہوں یا وہ فلاحی ادارے جو غریب کے نام پر قائم تو ضرور کیئے گئے ہوں مگر ان سے ذاتی فائدہ حاصل کیا جارہا ہو ہر ایک نے اس مسائل زد ہ قوم کو مایوسی نا اُمیدی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے ۔سیاستدان نااہلی ناقص کار کردگی کے
باوجود بھی اس ملک کا معزز شہری سمجھا جاتا ہے۔ کل بھی نااہل ناقص کار کردگی دکھانے والے اشرافیہ معزز تھے اور آج بھی وہ معزز ہی سمجھے جاتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ غریب کل بھی غریب تھا اور آج وہ غربت سے تنگ حکومت کے لنگر خانوں سے کھانا کھانے پر مجبور ہے ہم اپنے دشمن کو ہر محاذ پر شکست تو دے سکتے ہیں مگر ہم اس غربت کے نظام کو کب شکست دینے کے قابل ہونگے یاد رکھا جائے یہ قوم غریب نہیں ہے اس قوم کو غریب بنادیا گیا ہے اس قوم کو غربت کی طرفٖ دھکیل دیا گیا ہے جس قوم کے سیاستدان ملک و بیرون ملک اثاثے رکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں جس ملک کا میڈیا جس ملک کی اشرافیہ نیلام گھر شوز پر کروڑوں روپیہ خرچ کر سکتی ہو جس ملک کے کھیل کے میدانوں پر کروڑوں روپیہ ہر ماہ خرچ کیا جاتا ہو ۔اس ملک کو غر بت زدہ قرار دے کر اپنی سیاسی دکانیں چمکنے والوں کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ملک اللہ کی نعمتوں سے مالا مال قدارتی وسائل رکھنا والا ملک ہے اس کو غربت کا سامنا نااہل نالائق حکمرانوں کے سبب تو ہوسکتا ہے تو اس ملک پر اللہ کی رحمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔لہذا حکمرانوں سمیت ہر با اثر افراد جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے نوازاہے ان کو ایک بار اس ملک و قوم کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔اگر ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں ۔