امریکہ کے ساتھ اعتماد سازی کی بحالی بلاشبہ وزیراعظم عمران خان کا کریڈٹ ہے
ڈیووس میں ٹرمپ‘ عمران ملاقات‘ ٹرمپ کا عمران سے دوستی کا کھلا اظہار اور کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا اعادہ
وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر گزشتہ روز ڈیووس میں ملاقات ہوئی‘ دونوں ممالک کے وفود بھی اس ملاقات میں شامل تھے۔ اس موقع پر مختصر گفتگو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور خطے میں امن و استحکام کیلئے کردار ادا کرتا رہے گا‘ افغانستان کے معاملہ پر امریکہ اور پاکستان ایک پیج پر ہیں۔ انہوں نے صدر ٹرمپ سے دوبارہ ملاقات پر اظہار مسرت بھی کیا‘ اس موقع پر امریکی صدر نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے تنازعہ کے حل کیلئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عمران خان انکے دوست ہیں‘ ان سے دوبارہ ملاقات پر خوشی ہوئی۔ ہم پاکستان کے پہلے اتنے قریب نہیں تھے‘ جتنے اب ہیں۔ انہوں نے پھر پیشکش کی کہ مسئلہ کشمیر پر وہ پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات ہیں ہم کچھ سرحدوں پر بھی مل کر کام کررہے ہیں۔ کشمیر پر ہماری گفتگو ہوئی ہے اس معاملہ میں ہم یقیناً مدد کرینگے۔ ہم اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم افغانستان میں پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ افغانستان میں قیام امن اور طالبان حکومت کے معاملات کا مذاکرات سے حل چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ بھارت کے ساتھ معاملات ہیں‘ امید ہے امریکہ اس معاملے کو حل کرنے کیلئے کردار ادا کریگا۔ بھارت کے ساتھ معاملات کوئی دوسرا ملک حل نہیں کر سکتا‘ افغانستان کے معاملہ کا تعلق امریکہ اور پاکستان سے ہے۔
وزیراعظم عمران خان عالمی اقتصادی فورم کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کیلئے اس وقت ڈیووس میں ہیں جہاں انکی صدر ٹرمپ کے علاوہ سنگاپور کے وزیراعظم اور آزربائیجان کے صدر سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر منعقد ہونیوالی اس کانفرنس میں ہمارے خطہ سمیت پورے کرۂ ارض پر مرتب ہونیوالے اثرات سے عہدہ برأ ہونے کیلئے اس کانفرنس میں قابل عمل تجاویز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات اس حوالے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکے کھلم کھلا عزائم کے ناطے ہمارا خطہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ اگر خدانخواستہ اس جنگ کی نوبت آگئی جس میں بھارت کی مودی سرکار کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی تو یہ علاقائی ہی نہیں‘ عالمی تباہی پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ بھارت کے جنگی جنون کے آگے بند باندھنے اور اسے توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھنے کیلئے واشنگٹن انتظامیہ ہی مؤِثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس میں دیرینہ مسئلہ کشمیر کا حل زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کا اقدام اٹھانے اور کشمیریوں کو کرفیو کے ذریعے محصور کرکے ان پر ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ آزمانے کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات کی جانب بھی للچائی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا ہے اور بھارت کی سول اور عسکری قیادتیں ہذیانی کیفیت میں پاکستان سے کشمیر کا قبضہ چھڑانے کے نعرے لگارہی ہیں جو عملاً پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی دھمکیاں ہیں۔ اس حوالے سے بھارتی مودی سرکار پاکستان‘ مسلمانوں اور دوسری بھارتی اقلیتوں کو دبانے کیلئے ظلم و جبر کا جو راستہ اختیار کرچکی ہے وہ بالآخر پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے چنانچہ آج اسی تناظر میں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان بھارت کشیدگی پر فکرمندی کا اظہار کیا جارہا ہے اور مسئلہ کشمیر کے یواین چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل پر زور دیا جارہا ہے مگر رعونت میں ڈوبی مودی سرکار کسی بھی عالمی دبائو پر ٹس سے مس نہیں ہورہی۔
اس صورتحال میں اگر امریکی صدر ٹرمپ علاقائی اور عالمی امن کو یقینی بنانے کے جذبہ کے تحت بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل اور پاکستان سے اپنے معاملات درست کرنے کیلئے دبائو ڈالیں تو مودی سرکار کی اس سے انحراف کی جرأت نہیں ہو سکتی کیونکہ امریکہ کے ساتھ کئے گئے ایٹمی دفاعی تعاون اور جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے معاہدوں کی بنیاد پر ہی مودی سرکار کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکی کشیدگی کی فضا بھی بھارت کے پاکستان کیخلاف زہریلے پراپیگنڈے کے باعث ہموار ہوئی تھی اور دو سال قبل تک ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کا ناطقہ تنگ کرنے کیلئے اسکی سول اور فوجی گرانٹ روکنے سمیت ہر وہ اقدام اٹھا چکی تھی جو کسی دشمن ملک کیلئے اٹھایا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں امریکہ اور بھارت پاکستان کیخلاف یک زبان نظر آتے تھے اور کوئی بعید نہیں تھا کہ اس فضاء میں بھارت امریکہ کے ذریعے پاکستان کو عالمی تنہائی کی سازشوں کا شکار کرنے میں کامیاب ہوجاتا تاہم 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو وفاقی اور صوبائی اقتدار کا مینڈیٹ ملنے اور عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان امریکہ کشیدگی کے بادل چھٹنے لگے اور دونوں ممالک میں اعتماد سازی کی بحالی کیلئے سازگار فضا پیدا ہو گئی۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں یہ خوشگوار تبدیلی یقیناً عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے باعث رونما ہوئی جس میں خطے کے امن و استحکام کیلئے وزیراعظم عمران خان کی شروع دن کی مثبت سوچ اور کاوشوں کا بھی عمل دخل تھا۔ اس تناظر میں افغانستان میں قیام امن کیلئے بھی امریکہ کی پاکستان کے ساتھ امیدیں وابستہ ہو گئیں اور ٹرمپ انتظامیہ نے اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان سے سلسلۂ جنبانی شروع کر دیا۔ چنانچہ پاکستان اور امریکہ تعلقات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ صدر ٹرمپ نے خود وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ جولائی میں پورے پروٹوکول کے ساتھ وائٹ ہائوس مدعو کیا جبکہ انکے دورہ امریکہ سے قبل پاکستان کی روکی گئی سول اور فوجی گرانٹ بحال کرنے کا اعلان کیا گیا اور صدر ٹرمپ کے خصوصی مندوب برائے پاکستان و افغانستان زلمے خلیل زاد کو افغان امن عمل کیلئے پاکستان بھجوا دیا گیا۔ بھارت نے اسی دوران پاکستان پر دہشت گردوں کے سرپرست کا لیبل لگوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور وزیراعظم عمران خان کا مجوزہ دورۂ امریکہ ناکام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر امریکی حلیف ہونے کے باوجود اس معاملہ میں ٹرمپ انتظامیہ پر کسی بھارتی سازش کا کوئی اثر نہ ہوا اور وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کو پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کیلئے یادگار بنا دیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران جہاں انکے ساتھ دوستی پر فخر کا اظہار کیا وہیں انہوں نے علاقائی امن و استحکام کیلئے پاکستان کے مؤثر کردار پر اعتماد کا اظہار بھی کیا اور پھر اسی تناظر میں انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کر دی جس پر مودی سرکار آگ بگولہ ہو گئی اور اس پیشکش پر صدر ٹرمپ کو ٹکاسا جواب دے دیا۔ اسکے باوجود صدر ٹرمپ وزیراعظم عمران خان سے دوستی نبھانے کے ناطے ثالثی کی پیشکش پر کاربند رہے اور انہوں نے مختلف مواقع پر مسلسل پانچ بار اس پیشکش کا اعادہ کیا۔
اسکے برعکس بھارت کی مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی مزید بڑھا دی۔ کنٹرول لائن پر بلااشتعال اور یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر شروع کردیا اور ساتھ ہی ساتھ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کو دبانے کے نئے حربے اختیار کئے جانے لگے جو مقبوضہ وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے مودی سرکار کے پانچ اگست 2019ء کے انتہائی اقدام پر منتج ہوئے۔ اس پر بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور خود صدر ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم مودی کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کیلئے پیغام بھجوایا جبکہ کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے بھارتی اقدامات کیخلاف پاکستان کی درخواست پر طلب کئے گئے یواین سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں بھی امریکہ نے پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور چین امریکہ سمیت سلامتی کونسل کے تمام ارکان نے ایک زبان ہو کر مودی سرکار پر کشمیر میں حالات معمول پر لانے پر زور دیا۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی کشمیر ایشو پر امریکہ نے پاکستان کی ہاں میں ہاں ملائی اور وزیراعظم عمران خان کی تقریر کی سب سے زیادہ واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے پذیرائی کی گئی۔
اس وقت جبکہ پاکستان کے مؤثر کردار کے باعث امریکہ اور طالبان کے مابین افغان امن عمل کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے امکانات اجاگر ہو رہے ہیں‘ امریکہ کا پاکستان پر انحصار بڑھ رہا ہے اور واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی اہمیت کا برملا اعتراف کیا جارہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ افغان امن عمل کی بیل منڈھے چڑھنے کی خوشی میں بھارت کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کا دورہ بھی شیڈول کرچکے ہیں جو آئندہ ماہ متوقع ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس ممکنہ دورے کے حوالے سے ہی امریکی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز پاکستان کے دورے پر ہیں جن کی پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔ اب ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات اس خطے کے امن و استحکام کے حوالے سے دوررس اثرات کی حامل ہوسکتی ہے اور ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی دوبارہ پیشکش اس مسئلہ کے مستقل حل کیلئے انکی سنجیدگی کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ اپنے مجوزہ دورہ بھارت کے موقع پر بھی یقیناً مودی سرکار پر مسئلہ کشمیر کے حل اور پاکستان سے کشیدگی ختم کرنے کیلئے دبائو ڈالیں گے جبکہ پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری اور اعتماد سازی کی بحالی کے بھی پاکستان اور خطے پر مثبت اثرات مرتب ہونگے جس کا کریڈٹ بہرصورت وزیراعظم عمران خان کو ہی جائیگا۔