آٹو پارٹس مینو فیکچرنگ کمپنیاں سرمایہ کاری کیلئے آ رہی ہیں
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدا وار کے اجلاس میں وزارت صنعت و پیدا وار کاروں ، موٹر سائیکلوں کے مینو فیکچروں کے نمائندوں نے کمیٹی کولوکل صنعتوں کی 5 سالوں کی صورتحال پر بریفنگ کے ساتھ ساتھ اور آٹو موبائل انڈسٹری کو سپلائی کئے جانے والے سپیئر پارٹس کی صورتحال ، وزارت کی جانے سے بلائے گئے مقامی وینڈرز نے کمیٹی کو انڈسٹری کے درپیش مسائل سے اور ماحول دوست صنعتی مصنوعات کے سٹینڈرز اور مستقبل میں ان کے معیار کوبرقرار رکھنے کیلئے لائحہ عمل اور سی پیک کے تحت بنائے جانے والے اکنامک زون کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ پاکستان مختلف صنعتوں میں پیدا وار کر رہا ہے جن میں گاڑیاں ، لائٹ کمرشل گاریاں ، 32 ٹریکٹرز،ٹرک اور بسیں ، رکشہ اور موٹر سائیکلیں وغیر ہ شامل ہیں ۔آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کے تناسب سے موٹر سائیکل کی پیدا وار میں نمایاں اضافہ رہا ہے جبکہ گاڑیوں کی تعداد2013-14 میں 116,605 سے بڑھ کر2017-18 میں218,372 رہی ۔ اسی کے ساتھ ساتھ جیب اور لوکل کمرشل گاڑیوں کی مانگ میں بھی اضافہ رہا ۔ آٹو رکشہ انڈسٹری میں نمایاں کامیابی رہی جبکہ سازگار رکشہ پاکستان سے باہر بھی درآمد کیا جا رہاہے ۔ مختلف صنعت کاروں کی طرف سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ مستقبل میں آٹوپارٹ مینو فیکچر کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آرہی ہیں جس سے پاکستان مقامی گاڑیاں بنانے میں خود کفیل ہو سکے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ دنیا میں 200 میں سے صرف 40 ممالک ہیں جو گاڑیاں خود بناتے ہیں اور پاکستان کا نام ان میں شامل ہے جو انجن جاپان اور انڈونیشیاء میں بن رہا ہے اسی معیار کاانجن پاکستان خود تیار کرتا ہے ۔ کمیٹی کو صنعتی پیداوار کے حوالے سے اثرانداز ہونے والے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ غلط پالیسی کی وجہ اس صنعت کی افزائش میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے۔ خاص طور پر نان فائلر کا گاڑی کی خریداری پر پابندی، لوکل انڈسٹری میں خام مٹیریل کی عدم موجودگی، صوبوں کو ٹریکٹر کی خرید پر کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کا مڈل مین کی وجہ سے غلط استعمال اور ساتھ ہی لوکل ٹریکر کی کم پیداوار سب سے بڑھ کر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس صنعت پر بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی برآمد میں چھوٹ کی وجہ سے لوگ لوکل گاڑیاں نہیں خریدتے۔ چیئرمین کمیٹی احمد خان نے کہا کہ کمپنیاں ایڈوانس کی مد میں لئے جانے والی بھاری ادائیگی کے باوجود بھی کئی کئی مہینے پر گاڑیاں فراہم نہیں کرتے جبکہ اگر وہی لوگ کہیں اور سرمایہ کاری کریں تو انہیں منافع بھی حاصل ہوتا ہے پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کس طرح لوگوں کو سستی گاڑیاں دے سکیں۔ گاڑیوں کی بکنگ بارے بلیک مارکیٹنگ کو ختم ہونا چاہئے۔