قطر میں افغان مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے سے قبل مذاکرات پر آمادگی کاا ظہار کر دیا ہے۔اس سے قبل دسمبر کے وسط میں متحدہ عرب امارت میں افغان مذاکرات ہوئے جن میں سعودی عرب کے نمائدوںنے بھی شرکت کی۔ جنوری کے آغاز میں مذاکرات کے اگلے مرحلے کا امریکہ نے بائیکاٹ کر دیا ۔ پاکستان نے اس دوران کوشش کی اس کی وساطت سے اسلام آباد میں یہ مذکرات ہو جائیں ۔ مگر طالبان کاا صرار تھا کہ بات چیت قطر میں ہی ہونی چاہئے۔ پاکستان نے امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کو طالبان سے ملنے کا موقع فراہم کیا مگر طے یہی ہوا کہ مذاکرات قطر ہی میں ہوں گے چنانچہ زلمے خلیل زاد چار روز پاکستان میں گزارنے کے بعد اتوار کو قطر روانہ ہو گئے اور پیر کو طالبان سے ان کی ملاقات ہوئی اور چند بنیادی نکات پرا تفاق رائے کیا گیا۔ یہ مذکرات تادم تحریر جاری ہیں۔ان مذاکرات کے سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ امریکہ کوطالبان سے براہ راست بات چیت ہی کو مسئلے کا حل قرار دے رہے تھے۔ اس اصول کی ستائش ایک امریکی سینیٹر نے بھی کی ہے۔
امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان میںمداخلت کی مگر وہ طاقت کے بل پراس ملک کو زیر نہ کر سکا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کو افغانستان پر کوئی بیرونی حملہ آور قابض ہونے میں کامیاب نہیں نہ ہو سکا۔سوویت روس توا س کوشش میں پارہ پارہ ہو گیااور اب امریکہ اور نیٹو کا اضمحلال دیکھنے کے لائق ہے۔ چودہ برسوں کی لگاتار کارپٹ بمباری کے باوجود امریکی اور اتحادی فورسز افغانستان کے مختصر حصے پر قبضہ جما سکیں جبکہ ملک کا ساٹھ فی صد رقبہ طالبان کے کنٹرول میں رہاا ور امریکی اور اتحادی افواج صرف محفوظ چھائونیوں کے اندر محصور رہیں۔ امریکہ نے افغان طالبان کو دہشت گرد کہا اور پاکستان کو بھی ساتھ ہی رگیدا کہ اس نے افغان جنگ جوؤں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرر کھی ہیں۔پاکستان نے اس الزام کو کبھی قبول نہیں کیا ۔ا سلئے کہ جب افغانستان کا ساٹھ فیصد علاقہ طالبان کے زیر تسلط تھا تو انہیں پاکستان کے اندر پناہ گاہوں کی ضرورت کیا تھی۔بہر حال پاکستان پرامریکی دبائو میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اور وہ ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہا ، امریکی صدر کے حالیہ بیانات میں بھی پاکستان کو دھوکے باز کہا گیا اور امریکی فنڈ کھانے کا طعنہ دیاا ورا ٓئند ہ سے امریکی امدا ڈو مور سے مشروط کر دی۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک مضبوط اور مستحکم موقف اختیار کیا۔ پاک فوج نے بھی صاف کہہ دیا کہ وہ افغانستان کی جنگ اپنے ملک میں نہیں لڑے گی۔ عمران خان کی تو ایک ہی رٹ ہے کہ پاکستان پرائی جنگ نہیں لڑے گا۔ اس کے باوجود پاکستان نے امریکی الزامات کو رد کرنے کے لئے پاک ا فغان سرحد پر دیوار کھڑی کرنا شروع کر دی ا ور امریکہ اور افغان فوج سے کہا کہ وہ اپنی طرف سے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکیں کیونکہ یہ عناصر پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنے میں ملوث ہیں۔
امریکہ ا ور طالبان مذاکرات کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک یا تنظیم یا گروہ کو دہشتگرد قرار دے تو ضروری نہیں کہ ا س میں کوئی سچ بھی ہو،۔ امریکہ نے تو یاسر عرفات کو بھی دہشت گرد کہا تھا مگرا سی یاسر عرفات کو جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت بھی دی گئی۔ امریکہ نے نریندر مودی کو دہشت گرد کہاا ور اس کا امریکی ویزہ منسوخ کر دیا مگر وہ اپنے ملک کا وزیر اعظم بنا تو امریکہ کو تھوکا چاٹناپڑا۔ اسی امریکہ نے نیلسن منڈیلا کو دہشت کہا مگر آخر اسی کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔اسرائیل آج بھی فلسطینی حریت پسندوں کو دہشت گرد ہی کہتا ہے ۔ بھارت بھی کشمیری حریت پسندوں کو آج تک وادھی یا دہشت گرد کہتا ہے اور ان کا وحشیانہ قتل عام کرتا ہے۔ امریکہ نے جن جہادی گروپوں کی مدد سے سپر پاور روس کا تیاپانچہ کیا، وہ لوگ پاکستان میں آباد ہو گئے تو نائن الیون کے بعد امریکہ نے انہیں دہشت گرد کہہ دیااور پاکستان کو مجبور کیا کہ ان کا خاتمہ کرے۔امریکہ نے بھارت کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ را کے دہشت گردوں کی تربیت افغان سرزمین پر کرے اور انہیں پاکستان میں لہو بہانے کی کھلی چھٹی دے۔پاکستان کو بلوچ لبریشن آرمی کا سامنا ہے جن کی تاریں بھارت ہلا رہا ہے۔ انہیں قندھار کے بھارتی قونصل خانے سے ڈالرا ور اسلحہ ملتا ہے۔ بھارتی را کے افسر ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں اور کل بھوشن یہی کام کرتے پکڑا گیا ہے۔
خدا کرے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ پاکستان کے ہمسائے میں امن قائم ہو۔پاکستان کا موقف ہے کہ ا سکا اندرونی امن افغان امن کے ساتھ مشروط ہے ،اگر افغانستان میں بد امنی ہے تو پاکستان ہی نہیں پورے خطے میں بد امنی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ یہ اصول تاریخ سے ثابت شدہ ہے۔مگر امریکہ کوکون سمجھائے کہ وہ بار بار افغانستان پر نظر کرم نہ کرے،اب بھی امریکی فوج کسی طرح افغانستان سے نکل جاتی ہے تو خدشہ یہ ہے کہ سی پیک کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ٹھنی رہے گی ا ور سرد جنگ کی کیفیت جاری رہے گی۔ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ افغان اور امریکہ کے معاملات طے بھی ہو جائیںتو امریکہ کو پاکستان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے بہانے ملتے رہیں گے۔ پاکستان کے ساتھ امریکی پرخاش کی ایک وجہ ہمارا ایٹمی اور میزائل پروگرام بھی ہے جسے امریکہ اچکنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے مستقبل کے افق پر خدشات کے بادل امڈتے رہیں گے اور پاکستان کو اپنی سلامتی کے لئے سخت تگ ودو کرنا پڑے گی۔ امریکہ عراق سے نکل تو گیا ہے مگر خطہ عرب بدستور زلزلوں کی زد میں ہے۔ یہی نقشہ پاکستان اور اس کے ارد گرد کے خطے کا دکھائی دے رہا ہے۔بہر حال سر دست ساری توجہ ا فغان امن پر مرکوز رہنی چاہئے تاکہ ایک وجہ نزاع تو ختم ہو ،۔ پاکستان کسی طور اپنی سلامتی کا تحفظ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024