گزشتہ روز سانحہ ساہیوال کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کی۔جسے بعض حلقوں نے اطمینان بخش قرار دیا جبکہ بعض حلقوں نے اسے ناکافی قرار دیا ہے۔ مگر ڈرائیور ذیشان کے حوالے سے ابھی بھی بعض متضاد رپورٹس آرہی ہیں جس پر مزید تفتیش ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن جو بھی ہوا اس کی اصل رپورٹ ضرور منظرعام پر آنی چاہیے تاکہ عوام اصل حقائق جان سکیں اور ملک میں موجود احساس تحفظ کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ ساہیوال میں گزرے ہفتے جو ہوا ، دنیا کے کسی بھی معاشرے میں اس کا کوئی جواز نہیں ہاں مگر وہ معاشرہ انسانی ہو۔ سخت رنج کا عالم ہے او رمیں اس واقعے کے بعد سے سکون کی نیند سو نہیں پایا۔ دوسرا!میری دستیاب معلومات کی حد تک سانحہ ساہیوال پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم شائد پاکستان کی تاریخ میں پہلی تحقیقاتی ٹیم ہے جسے تحقیقات کے لئے صرف تین دن دئیے گئے ۔ پھر بھی جے آئی ٹی افسران نے اچھا کام کیا اور ابتدائی رپورٹ میں سی ٹی ڈی افسران کو خلیل کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ مقتول خلیل اور اس کے خاندان کا دہشتگردی سے کوئی تعلق ثابت نہ ہوسکا۔پنجاب حکومت کا اس حوالے سے موقف تھا کہ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے اور حکومت اس کیس کو مثال بناکر متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرے گی۔حکومت نے ایڈیشنل آئی جی آپریشن کو عہدے سے ہٹاکر حکومت کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو بھی عہدے سے ہٹاکر وفاق کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکومت نے اے آئی جی آپریشنز سمیت پانچ دیگر افسران کو بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ قتل میں ملوث 5 سی ٹی ڈی اہلکاروں کا چالان کرکے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔اور اس کے علاوہ واقعے میں ایک اور شخص ذیشان ہلاک ہوا تھا جس کے حوالے سے معلومات اکھٹی کرنے کیلئے جے آئی ٹی سربراہ نے مزید وقت مانگا ہے۔جبکہ جب تک ساری چیزیں کلئیر نہ ہوجائیں اس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا، فائرنگ کرنے والے سی ٹی ڈی کے 6 اہلکار حراست میں ہیں جن کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں اور ابتدائی طور پر شہادتیں اکٹھی ہو رہی ہیں۔
یہ واقعہ یقینا حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس سے بڑھ کر ہے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ وزیر اعظم عمران خان اس حوالے سے فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ واقعہ میں غفلت برتنے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ عمران خان کے اس بیان پر احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں نوشیرواں عادل اور شیر شاہ سوری کی حکمرانی نہ سہی، کوئی درد دل رکھنے والے انسان برسر اقتدار ہے۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ عوام کا غم و غصہ قابل فہم اور جائز ہے اور وہ قطر سے واپسی پر نہ صرف پنجاب میں پولیس ڈھانچے کی اصلاح کے لئے اقدامات کریں گے بلکہ قانون کے مطابق قاتلوں کو سزا بھی دلائیں گے۔ سوال مگر عمران خان کی نیک نیتی، عزم صمیم اور عوام دوستی پر نہیں اٹھ رہا بلکہ پنجاب پولیس کی کارگزاری زیر بحث ہے۔ قتل عمد کا یہ واقعہ ہوا تو سی ٹی ڈی نے پریس ریلیز کے ذریعے عوام کو اطلاع دی کہ فورس کا دہشت گردوں سے مقابلہ ہوا اور ساتھیوں کی فائرنگ سے چار دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن میں دو خواتین شامل تھیں۔ میڈیا پر شور مچا اور اہلکاروں کی فائرنگ سے بچ جانے والے تین معصوم بچوں کے علاوہ عینی شاہدوں نے واردات کا بھانڈا پھوڑا تووزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مقتولوں کو بے گناہ قرار دیدیا۔ وہ ساہیوال بھی عمران خان کی ہدایت پر روانہ ہوئے اور چند مشیروں نے انہیں صدمے سے دو چار یتیم و بے آسرا بچوں کو گلدستہ پیش کرنے کی ترغیب دی، ڈپٹی کمشنر ساہیوال نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی تردید کی۔ عمران خان کی مسلسل ٹوئٹس، عثمان بزدار کی ساہیوال میں یتیم بچوں سے ملاقات اور مزاج پرسی کے علاوہ جے آئی ٹی کی تشکیل سے عوام قدرے مطمئن ہوئے اور انہیں احساس ہونے لگا کہ کوئی قاتل سزا سے بچ نہیں پائے گا۔
اور رہی بات سی ٹی ڈی پر تنقید کی تو یقینا سی ٹی ڈی کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ اور اگر سی ٹی ڈی میں کہیں مسئلہ ہے تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سی ٹی ڈی میں لوگ پولیس سے آئے ہیں۔ جو لوگ سی ٹی ڈی کی سربراہی کرتے ہیں وہ بھی پولیس سے آتے ہیں۔ اور اس طرح اس فورس کے کام کرنے میں پولیس کا انداز اور پولیس کلچر موجود ہے۔ اس لیے میں اس کودہشت گردی سے لڑنے والی بہترین پیشہ ورانہ فورس نہیں بلکہ 75فیصد بہتر سمجھتا ہوں جس میں 25فیصد بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ کیوں کہ یہاں کام کرنے کا اسٹائل پولیس جیسا ہے۔ مقدمات کی تفتیش کا اسٹائل پولیس جیسا ہے۔ رشوت کا معیار بھی پولیس جیساہو سکتا ہے۔ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی سوچ بھی پولیس جیسی ہوسکتی ہے۔لیکن ان کے پاس اختیارات پولیس سے زیادہ ہیں۔اس لیے یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ اگر سی ٹی ڈی نے پولیس کے اسٹائل میں ہی کام کرنا ہے تو یہ فورس الگ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ پولیس کے پاس ہر شہر میں پولیس مقابلے کے ماہرین موجود ہیں۔اس لیے اُن سے کام لیا جانا چاہیے۔ اورعمران خان نے پولیس اور بیورو کریسی کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ یقینا اس پر عمل درآمد کروائیں گے۔کیوں کہ آج بھی ہماری بیوروکریسی میں اقربا پروری موجود ہے اور کسی نہ کسی حد تک بدعنوانی کا عنصر موجود ہے اور پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے آثار معدوم ہیں۔اگر اپنے وعدہ کے مطابق عمران خان قطر سے واپسی پر کسی سیاسی مصلحت اور اندورونی و بیرونی دبائوکی پروا کئے بغیر پنجاب میں وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو عوام کی خواہش اور عدل و انصاف کا تقاضا ہے تو مخالفین کی زبانیں بند ہوں گی اور عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا لیکن اگر انہوں نے ٹال مٹول پر اکتفا کیا، سرکاری افسروں کی اطلاعات اور خوشامدی مشیروں کی رپورٹوں کو سچ جانا اور کوئی انقلابی قدم نہ اٹھایا تو سانحہ ساہیوال ایک ایسا بدنما داغ ہے جو عمران خان‘ تحریک انصاف اور عثمان بزدار کی حکمرانی کے چہرے سے کبھی مٹ نہیں پائے گا۔
بہرکیف آج جب ملک میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی عدالتوں کی مزید ضرورت ہے کہ نہیں۔ تو سی ٹی ڈی کی آج تک کی کارکردگی کا فرانزک آڈٹ بھی ہونا چاہیے۔ اس بات کا پتہ لگنا چاہیے کہ دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میںکتنے گناہ گار اور کتنے بے گناہ تھے جو پکڑے اور مارے گئے۔ دیکھیں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے گوانتانامو جیسی جیلیں بنائی ہیں۔لیکن میری رائے میں یہ ایک فرسودہ اور جاہلانہ دلیل ہے۔ اگر کسی کو بے گناہ پکڑا بھی گیا ہے تو ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اتنی قانون کی پاسداری ہونی چاہیے کہ وہ تسلیم کریں کہ ہم نے اس کو بے گناہ پکڑا تھا یہ بے قصور ہے۔ جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے عدالت کے حوالہ کرنا کوئی شرافت نہیں۔ کہ جاؤ عدالت سے بری ہو جاؤ۔ اگر کسی کو بے گناہ پکڑا گیا ہے تومعاشرہ میں اس کی عزت وقار اور زندگی کو بحال کرنا حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہونی چاہیے۔ لوگوں کو زندہ لاش بنا کر واپس معاشرہ میں پھینک دینا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔آج وقت آگیا ہے کہ معاملات کو بہتر کیا جائے۔ اور جو حقیقت ہے اُسے عوام کے سامنے رکھا جائے، تاکہ عوام مطمئن ہوسکیںاس لیے ریاست دل بڑا کرے تاکہ لوگوں کے زخموں پر کچھ تو مرہم رکھا جا سکے۔ اورمیں اسی لیے کہتا ہوں کہ قوم کے سامنے حقائق آنے چاہییں، اس سمیت تمام کیسز کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرسکے۔ اور اس بات سے کون مکر سکتا ہے کہ قوم کے بچے سب کے بچے ہوتے ہیں۔ قوم کی مائیں سب کی مائیں ہوتی ہیں۔ ہمارے اوپر کسی ایک بے گناہ کا قتل بھی بھاری ہے جس کی ہمیں قیمت چکانا پڑے گی۔ لہٰذاہمیں قانون اور آئین کی عملداری اپنانی ہوگی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024