اصلاح احوال کیلئے کم از کم اس سانحہ کو عبرت کی مثال بنالیا جائے
سانحہ ٔ ساہیوال پر سینٹ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی سراپا احتجاج اور وزیراعظم کی مثالی سزائوں کی یقین دہانی
سینٹ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان سانحۂ ساہیوال اور اس پر بعض حکومتی حلقوں کی جانب سے سی ٹی ڈی کے موقف کی تائید پر سراپا احتجاج بن گئے۔ پنجاب حکومت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا اور اس سانحہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا تقاضا کیا۔ اس سلسلہ میں قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہم اس پر پی ٹی آئی کی سیاست کی طرح دھرنا تو نہیں دینگے مگر اصل حقائق سامنے آنے تک حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دینگے۔ انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک واقعہ کے بعد حکومت نے کئی پینترے بدلے ہیں۔ انکے بقول وزیراعظم عمران خان کو سانحہ ساہیوال پر قوم کو جواب دینا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ملک میں قانون سب کیلئے ایک ہو تو سب کچھ رک سکتا ہے۔ دہشت گردی روکنے والے خود دہشت گرد بن گئے۔ سانحۂ ساہیوال میں اصل دہشت گرد وہ تھے جنہوں نے خون بہایا‘ ان پر دہشت گردوں کی طرح مقدمہ چلایا جائے۔ قبل ازیں وفاقی وزیر محمدعلی خان کی جانب سے ایوان کی کارروائی ملتوی کرکے ساہیوال واقعہ پر بحث کیلئے پیش کی گئی تحریک منظور کرلی گئی۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے سانحۂ ساہیوال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس سانحہ سے پوری دنیا لرز اٹھی ہے اور ہر آدمی خود کو غیرمحفوظ سمجھ رہا ہے جبکہ اس سانحہ پر حکومتی وزراء کے بیانات قابل اعتراض ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خدا کیلئے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب مستعفی ہو کر قوم سے معافی مانگیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ انہیں مستعفی بھی ہونا پڑا تو وہ سانحۂ ساہیوال میں ملوث افراد کو عبرت کی مثال بنا کر چھوڑیں گے۔ اس سانحہ پر پوری قوم آبدیدہ ہے۔ اس سانحہ پر حکومت کو جواب دینا پڑیگا اور ہم دینگے تاہم الزامات در الزامات سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔
دوسری جانب سینٹ کے اجلاس میں بھی گزشتہ شام حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی جانب سے سانحۂ ساہیوال پر رنج و غم اور غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ سینٹ کے قائد ایوان شبلی فراز نے کہا کہ اس سانحہ پر پوری قوم دکھی ہے اور حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی ہے۔ راجہ ظفرالحق اور دوسرے اپوزیشن ارکان نے سانحہ ساہیوال پر ایوان میں بحث کرانے کا تقاضا کیا جو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے منظور کرلیا۔ اپوزیشن ارکان نے اس سانحہ پر حکومتی موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی تفصیلات قوم کے سامنے آنی چاہئیں۔ ہم اس معاملہ پر جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے تمام ارکان کو اس سانحہ پر اظہار خیال کی اجازت دے دی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بھی گزشتہ روز اپوزیشن کی جانب سے سانحۂ ساہیوال پر شدید احتجاج کیا گیا اور جے آئی ٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا تقاضا کیا گیا۔ اجلاس میں اپوزیشن بنچوں کی جانب سے حکومت کیخلاف سخت نعرے بازی بھی کی گئی۔ اس سانحہ کے حوالے سے تینوں منتخب ایوانوں میں سانحۂ ماڈل ٹائون لاہور اور کراچی میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے واقعات کی صدائے بازگشت بھی گونجتی رہی اور اس حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہے۔
ہفتہ 19 جنوری کو سی ٹی ڈی کی جانب سے دن دہاڑے بربریت اور سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس انداز میں ساہیوال کے قریب ایک آلٹو گاڑی کو روک کر اس پر بے دریغ فائر کھولے گئے جسکے نتیجہ میں گاڑی میں موجود لاہور کا خلیل‘ اسکی اہلیہ‘ تیرہ سالہ بیٹی اور گاڑی کا ڈرائیور ذیشان جاں بحق ہوا‘ اسکی سوشل میڈیا پر ویڈیو اور تصاویر دیکھ کر پوری قوم پر عملاً سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اگر جائے وقوعہ پر سی ٹی ڈی کی گاڑی کے پیچھے موجود مسافر بس کے ایک سوار کی جانب سے اس وقوعہ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر نہ ڈالی گئی ہوتی تو اول تو یہ اندھے قتل کی واردات قرار پاتی یا اس پر سی ٹی ڈی کا گھڑا گھڑایا موقف ہی تسلیم کرکے ’’سفاک دہشت گردوں‘‘ کو کامیاب اپریشن میں مارنے پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کیلئے قومی اعزازات بھی تجویز کئے جاچکے ہوتے جن کی اس واردات کو سی ٹی ڈی کی جانب سے دہشت گردوں کیخلاف کامیاب اپریشن قرار دیا جا چکا تھا اور میڈیا کو جاری کی گئی اسکی رپورٹ میں ڈرائیور ذیشان ہی نہیں‘ خلیل‘ اسکی اہلیہ نبیلہ اور معصوم بچی اریبہ کو بھی دہشت گرد قرار دیا جاچکا تھا۔ جب خلیل کے معصوم بیٹے نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ اسکے امی ابو کو پولیس والوں نے گولیاں ماردی ہیں اور مجھے اور میری بہنوں کو پٹرول پمپ پر اتار دیا ہے تو سی ٹی ڈی کی اس سانحہ کے بارے میں گھڑی گئی کہانی کا بھانڈہ پھوٹا۔
اس سے زیادہ افسوسناک یہ صورتحال ہے کہ وقوعہ کے چند ہی لمحوں بعدوفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے میڈیا کے روبرو اس سانحہ کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے اپریشن کی حمایت شروع کردی اور مقتولین کو دہشت گرد بنانے والی سی ٹی ڈی کی رپورٹ پر ہی صاد کرلیا۔ اگرچہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے اس سانحہ پر گہرے صدمے کا اظہار کیا اور انصاف کے تقاضے بروئے کار لانے کا یقین دلایا مگر اس سانحہ کے اگلے روز چار صوبائی وزراء نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے اس سانحہ کے حوالے سے سی ٹی ڈی کے موقف کی نہ صرف تائید کی بلکہ ڈرائیور ذیشان کے داعش کا رکن ہونے اور اس حیثیت میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں شریک ہونے کی بھی اپنے تئیں تصدیق کردی اور اس موقف کو تقویت پہنچانے کیلئے گوجرانوالہ میں اسکے دو مبینہ ساتھیوں کے خود کو دھماکے سے اڑانے کا معاملہ بھی اسی کے ساتھ زیب داستان بنا دیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے تو اس سانحہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا اور اس سے 72 گھنٹے میں رپورٹ طلب کی مگر پنجاب حکومت کے چار وزراء اور بعض دوسرے حکومتی حلقے جے آئی ٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی مرنے والوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں مصروف رہے جس سے یقیناً عوامی غم و غصہ میں اضافہ ہوا اور لاہور‘ ساہیوال اور بورے والا میں لوگوں نے سڑکوں پر آکر اس حکومتی موقف کیخلاف زبردست احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا جس سے یقیناً حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا کے علاوہ دوسرے مختلف حلقوں میں بھی بجاطور پر یہ سوالات اٹھنا شروع ہوگئے کہ سی ٹی ڈی کو کسی دہشت گرد کو زندہ پکڑنے کے بجائے اسکی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہونے کے باوجود اسے مارنے کا اختیار کیسے مل گیا۔ اس حوالے سے مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے مختلف ٹی وی چینلوں پر گفتگو کے دوران وقوعہ کے بارے میں جو المناک داستان سنائی ہے‘ اس سے انسانیت ہی شرمسار نہیں ہوئی‘ وردی کا تقدس بھی مجروح ہوا ہے۔ اسکے مطابق سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اسکی مقتول فیملی کے ساتھ ڈکیتی کی واردات کی ہے جنہیں بے دردی سے قتل کرنے کے بعد انہوں نے اریبہ اور نبیلہ کے طلائی زیورات بھی پوری سفاکی کا مظاہرہ کرکے اتار لئے جس کا ثبوت انکے پھٹے ہوئے کان ہیں۔ اسی طرح انہوں نے گاڑی میں موجود بیگ پر بھی ہاتھ صاف کیا جس میں پارچات اور زیورات کے علاوہ نقدی بھی موجود تھی۔ اس واردات میں زخمی ہونیوالے بچے نے مزید بھانڈہ پھوڑا کہ اس نے اپنے ابو کا موبائل فون اٹھایا تو ایک اہلکار نے اسکے پائوں کو اپنے بوٹوں سے مسلتے ہوئے اس سے وہ موبائل بھی چھین لیا۔
یہ بلاشبہ ایک قومی المیہ ہے جس پر حکومتی حلقوں کی جانب سے پیش کی جانیوالی صفائیوں سے قوم کے غم میں مزید اضافہ ہوا تاہم وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد حکومتی شخصیات خود بھی اس سانحہ کے غم میں ڈوبی ہوئی نظر آئیں اور وزیرمملکت زرتاج گل تو گزشتہ روز ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس سانحہ پر بات کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں اور یہ تک کہہ دیا کہ وہ اس سانحہ پر قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی سن کر خود شرمندگی محسوس کررہی ہیں کہ وہ اس ایوان میں کیوں بیٹھی ہیں۔
اصولی طور پر تو حکومت کی جانب سے سانحۂ ساہیوال پر سی ٹی ڈی کے موقف کی وکالت کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی جبکہ خود سی ٹی ڈی کی جانب سے باربار موقف تبدیل کیا جارہا تھا جس سے سی ٹی ڈی کی یہ کارروائی بذات خود مشکوک ہوگئی تھی۔ سی ٹی ڈی کی اس کارروائی سے دہشت گردوں کے بارے میں اس کا اطلاعات اور ریکی کا سسٹم بھی ناکارہ ہونے کا ثبوت مل چکا ہے کہ بادی النظر میں کسی ناقص اطلاع پر بے گناہ لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور پھر اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اپنی واردات کے بارے میں متعلقہ حکومتی حلقوں کو بھی مس گائیڈ کیا نتیجتاً حکومت کو اس معاملہ میں سبکی اٹھانا پڑی۔ مقتول ذیشان کی والدہ‘ اہلیہ‘ بھائی اور دیگر رشتہ دار بھی گزشتہ روز یہی رونا روتے رہے کہ ذیشان کو دہشت گرد بنا کر اسکے اہل خانہ کا معاشرے میں زندہ رہنا محال بنادیا گیا ہے۔ انہوںنے اسی تناظر میں تقاضا کیا کہ انصاف سے پہلے ذیشان سے دہشتگرد کا لیبل اتارا جائے تاکہ کوئی اسکی بچی کو دہشت گرد کی بچی‘ اسکی اہلیہ کہ دہشت گرد کی اہلیہ اور والدہ کو دہشت گرد کی والدہ نہ کہہ سکے۔ اس حوالے سے متاثرہ خاندانوں اور پوری قوم کی آنکھیں جے آئی ٹی پر جمی ہیں جسے وزیراعلیٰ پنجاب نے 72 گھنٹے کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تاہم یہ میعاد پوری ہونے کے باوجود گزشتہ روز جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش نہیں ہوسکی۔ جے آئی ٹی کی کارروائی کے حوالے سے ابتدائی طور پر جو بات سامنے آئی ہے اسکے مطابق جے آئی ٹی ساہیوال اپریشن کے بارے میں سی ٹی ڈی کے متضاد بیانات سے مطمئن نہیں ہے۔ اگر جے آئی ٹی رپورٹ میں سی ٹی ڈی کے متعلقہ اہلکاروں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے تو سی ٹی ڈی کے موقف کی حمایت کرنیوالے حکومتی حلقوں کو یقیناً مزید سبکی اٹھانا پڑیگی تاہم سانحۂ ساہیوال میں انصاف کے تمام تقاضے بہرصورت پورے ہونے چاہئیں اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ڈکیتی اور قتل کا جرم کیا ہے تو انہیں ایسی عبرت ناک سزائیں ضرور ملنی چاہئیں کہ آئندہ کسی سرکاری اہلکار کو اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کی جرأت تک نہ ہوسکے۔ کم از کم اس سانحہ کی بنیاد پر ہی سسٹم میں موجود خرابیاں دور کرلی جائیں۔
سینٹ‘ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اس معاملہ پر ابھی بحث جاری ہے جبکہ خیبر پی کے اسمبلی میں بھی اس سانحہ کیخلاف قرارداد جمع کرادی گئی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے دورہ قطر سے واپسی پر سانحۂ ساہیوال پر عوام کے غم و غصہ کو جائز قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کو مثالی سزا دینے کا اعلان کیا ہے اس لئے اس سانحہ پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے اب انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم نے ایسے سانحات پر بھی عبرت حاصل نہ کی اور اصلاح احوال کے اقدامات نہ اٹھائے تو ہمیں اجتماعی بربادی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔