بدھ ‘ 16؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 23 ؍ جنوری 2019ء
ق لیگی ارکان پارلیمنٹ کا صوبائی، وفاقی حکومت کے رویہ پر اظہار تشویش، شجاعت کو فیصلے کا اختیار دے دیا
تو یوں کہیں ناں اسی تنخواہ پر کام کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ چودھری شجاعت مرنجان قسم کے انسان ہیں۔ روایتی بڑا پن ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ دھیما لہجہ، نرم گفتاری ان کی عادت ہے۔اب اگر وہ کسی سے گلہ بھی کریں تو لگتا ہے معذرت کر رہے ہیں۔ اس وقت ق لیگ والوں کی پی ٹی آئی حکومت سے جو انکی حلیف ہے‘ ٹھنی ہوئی ہے۔ ق لیگ کے ارکان نظر انداز کئے جانے پر چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ نہ بنانے پر اور بے اختیار وزارت میں بھی مداخلت پر تپے بیٹھے ہیں۔ اب انہوں نے اپنا کیس وزیراعظم کے پاس بھیج کر لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مگر اب اس کیس کے لڑنے کیلئے ق لیگ والوں نے جو وکیل کھڑا کیا ہے۔ وہ بہت بھولا بھالا اور شریف النفس ہے۔ یہ توسیدھے سبھائو اپنے موقف سے بحق حکومت دستبرداری کی بات لگتی ہے۔ چودھری صاحب نے ایک دوباتوں کے بعد ہی اپنی ’’مٹی پائو‘‘ آفاقی پالیسی کا اعلان کر دینا ہے۔ جس کے بعد ق لیگ والے … ؎
ٹانگا آ گیا کچہریوں خالی
تے سجنا نوں قید ہو گئی
کہتے ہوئے نظر آ رہے ہوں گے۔ وڈے چودھری صاحب تو سیدھے سادے بندے ہیں۔ ان کو اختیار دینے کا مطلب ہی نکلتا ہے کہ ’’چلو جی اسی طرح کام چلنے دو‘‘
٭……٭……٭
اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر پولیس اہلکاروں کی فیملیز سے ناروا پوچھ گچھ پر سینٹ میں اظہار برہمی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری پولیس ساری مستعدی وہاں دکھاتی ہے جہاں اس کی ضرورت نہیں۔ جہاں مستعدی دکھانے کی ضرورت ہے وہاں سے چپکے سے کھسک جانے میں عافیت سمجھتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی کون سے تفریحی مقامات رہ گئے ہیں کہ اب اسلام آباد کے تفریحی مقامات پر پولیس والے داخلے کے وقت منہ سونگھنے کی فرمائش کرتے ہیں اور خاصے بدذوق قسم کے اہلکار صرف اس پر ہی بس نہیں کرتے اہلخانہ سے نکاح نامے بھی طلب کرتے پھرتے ہیں۔ اب بھلا جہاں میاں بیوی کے ساتھ تین یا چار عدد بچوں کی شکل میں تصدیقی سرٹیفکیٹ موجود ہوں، وہاں نکاح نامہ طلب کرنے کا مطلب جھگڑا مول لینا ہی تو ہے۔ مگر یہ پولیس والے آ بیل مجھے مار والی حرکتوں سے باز نہیں آتے اور پھر کہتے ہیں کہ عوام تعاون نہیں کرتے۔ اگر یہ پابندی ضروری ہے تو پھر باقی شہروں کے پارکوں میں لاگو کیوں نہیں، جہاں وردی والوںکی موجودگی کے باوجود ان کو اطلاع کے باوجود شراب اور جوئے کی محفلیں نہایت اہتمام سے سجائی جاتی ہیں اور یہ قانونی محافظ باقاعدہ نذرانہ لے کر ان محفلوں کو برہم نہیں کرتے۔ بے شک آوارہ منش لوگ اور گمراہ قسم کے نوجوان سیر و تفریح کے مقامات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ صرف وہاں بیٹھ کر شیخ چلی والے خیالی پلائو ہی پکاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کنگلے لیلیٰ مجنوں ہوتے ہیں۔ ان پر نظر ضرور رکھنی چاہئے مگر عام لوگوں کو تنگ نہیں کرنا چاہئے جو یہاں تفریح کے لئے آتے ہیں اور پولیس والے ان کی تفریح بھی غارت کر دیتے ہیں۔
٭……٭……٭
بلاول کی کومل رضوی، مومل شیخ اور فریحہ الطاف کے ساتھ سلفیاں
جب کوئی فلاحی پروگرام ہو اور شوبز والے بھی موجود ہوں تو پھر بلاول جیسے پاپولر سیاسی نوجوان کے ساتھ شوبز سے تعلقات رکھنے والی اداکارائیں گلوکارائیں سلفیاں نہیں بنائیں گی تو کیا منہ چھپا کر ادھر ادھر کھسک جائیں گی یا شرعی پردہ کریں گی۔ گزشتہ روز یہی کچھ کڈنی سینٹر کراچی کی تقریب میں بھی ہوا، جب تقریب میں شامل شوبزکے ستاروں نے آسمان سیاست پرچمکنے والے اس ستارے کو گھیرے میں لے لیا اور انکے ساتھ سلفیاں بنوائیں۔ معلوم ہوتا ہے بلاول صاحب فلمی دنیا میں بھی کافی مقبول ہیں اور خواتین فلمی ستاروں کی بڑی تعداد ان کی فین ہے۔ اب آئندہ ایسی کسی بھی تقریب کے منتظمین بلاول کو مدعو کرتے وقت بڑے اہتمام کے ساتھ شوبز سے تعلق رکھنے والے ستاروں کو بھی مدعوکریں گے تاکہ تقریب میں چار چاند لگ جائیں اور لوگ فیاضی سے ایسے فلاحی اداروں کی مدد بھی کریں ۔اگر بلاول صاحب اپنے ساتھ سیلفی کی قیمت مقرر کرتے جس طرح الیکشن کے دنوں میں فاروق ستار نے ووٹ دو اور سیلفی لو ریٹ مقرر کیا تھاتو صاحب ثروت مالدار خواتین کی بڑی تعداد ہنسی خوشی قیمت ادا کر کے بلاول کے ساتھ تصویریں ۔اتارتیں یوں کڈنی سینٹر فلاحی کام کیلئے وافر مقدار میں چندہ بھی مل جاتا۔ خیرپریشانی کی کوئی بات نہیں ’’ابھی عشق میں امتحاں اور بھی ہیں،، ایسے کئی مواقع ملتے رہیں گے۔ تقریب کے بعد کومل رضوی نے تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بڑا دلچسپ جملہ لکھا کہ میں اردو پنجابی، انگریزی، بلوچی زبان میں گانے گا چکی ہوں۔ اب سندھی میں بھی گانے کا سوچ رہی ہوں۔
٭……٭……٭
پی ایس ایل کا نیا ترانہ قبل از وقت جاری کرنے کی انکوائری شروع
یہ ترانا اس بار ممتاز گلوکار علی ظفر کی بجائے نامور اداکار فواد خان کی آواز میں تیار ہوا۔ اس میں گلوکاری کے ساتھ ساتھ فواد خان نے اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اوروہ بھی خوب دکھائے ہیں۔ اب اطلاعات کیمطابق یہ ترانہ 4 گھنٹے قبل ریلیز ہونے سے خوفناک بحران سامنے آیا ہے۔ جس سے لگتا ہے پی سی بی والوں کی نائو ڈگمگانے لگی ہے۔ ویسے بھی جب کوئی کام نہ ہو تو ایسے چھوٹے موٹے معمولی ایشوز کو لے کر ہمارے ہاں رائی کا پہاڑ بنانے کا شغل عام ہے۔ ہرکوئی اس میں ماہر نظر آتا ہے۔ اب 4 گھنٹے پہلے یا بعد میں ریلیز ہونے سے کیا قیامت برپا ہوگئی۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ پہلے کہا جاتا رہا کہ علی ظفر کے نغمے زیادہ پاپولر نہیں ہوئے اب یہ پخ لگائی جا رہی ہے کہ نیا نغمہ بھی مقبول نہیں ہو رہا۔ جبکہ یہ نغمہ مقبول ہی نہیں ہو رہا تو بھائی جان قدر دان پھر ایک سال پہلے ریلیز ہو یا ایک دن بعد کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نغمہ مقبول نہیں۔اب اس خبر کے ساتھ پھرتی سے پی سی بی نے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔اس پھرتی کی داد دینی چاہئے۔ ویسے کیا پی سی بی کی اپنے چیئرمین کی طرف بھی نظر گئی ہے۔ جنہوں نے صرف 4 ماہ میں غیر ملکی دوروں پر 17 لاکھ 98 ہزار زیرصدارت اجلاسوں پر 16 لاکھ اور رہائش کی مد میں 11 لاکھ پھونک ڈالے ہیں۔ پی سی بی والوں کو بھی دیگر اداروں کی طرح انکوائری کا شوق کچھ زیادہ ہی ہے۔ وہ یہ شوق بھی پورا کر لیں مگر یاد رہے اگر ’’لوآپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ والا معاملہ درپیش ہوا تو پھر یہ سب انکوائریوں والے کیا کریں گے۔
٭……٭……٭