گورننس اور ایڈمنسٹریشن پاکستان کا نمبر ون مسئلہ رہا ہے جس پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور ہی نہیں کیا گیا۔ بیوروکریسی کا مائنڈ سیٹ کلونیل یعنی آقا ہے۔ قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں سول سرونٹس کو خبردار کیا تھا۔
You are not rulers you are servants of the people
ترجمہ "آپ حاکم نہیں ہیں بلکہ عوام کے خادم ہیں" حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں بیوروکریسی کو سول سرونٹس کہا جاتا ہے مگر عملی طور پر یہ عوام کے اصل حاکم بنے ہوئے ہیں۔ عوام کی خدمت ان کے مزاج اور فطرت میں شامل ہی نہیں ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں نواب آف کالاباغ نے ایڈمنسٹریشن کا بہترین نمونہ پیش کیا تھا وہ کبھی چھاپے نہیں مارتے تھے اور ان کو گورنر ہاؤس میں بیٹھ کر ریاستی اداروں کی کارکردگی کی رپورٹ ملتی رہتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر نے بھی معیاری ایڈمنسٹریشن کا مظاہرہ کیا، ان کے دور میں پولیس نے ہڑتال کردی جس سے انہوں نے آہنی ہاتھوں سے نمٹا اور پولیس کو 24 گھنٹے کے اندر ڈیوٹی پر آنا پڑا ساہیوال کا ہولناک سانحہ گورننس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے 70 سال کے بعد بھی ہم پولیس کو آزاد خود مختار اور غیر سیاسی نہیں بنا سکے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دے دی جاتی تو ساہیوال جیسے المناک واقعات ظہور پذیر نہ ہوتے۔ پاکستان کی پولیس بدقسمتی سے حکمران اشرافیہ کے مفادات کے دفاع اور تحفظ کا آلہ کار بن چکی ہے اور عوام کی خدمت پولیس کے فرائض میں شامل ہی نہیں ہے۔
پاکستان کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ مفکر اور دانشور جج ہیں۔ ریاست اور گورننس کے مسائل پر غور و خوض کرتے رہتے ہیں، جب حکومتی مقدمات ان کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو ان کو بیوروکریسی کی کارکردگی کا علم ہوتا رہتا ہے۔ اپنے عظیم والد سردار فیض محمد کھوسہ کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے وہ مادر وطن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان دوسرے ملکوں کی طرح ترقی کرے۔ انہوں نے سابق چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار کے فل کورٹ ریفرنس میں جو خطاب کیا وہ دانشمندانہ اور بصیرت افروز تھا مگر افسوس ہمارے ذہنی طور پر پسماندہ اور ذاتی مفادات کے اسیر دانشوروں اور حکمران اشرافیہ نے ان کے خطاب پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہی نہیں کیا۔ انتہائی افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہے اور پاکستان کے قومی مسائل پر سنجیدہ بحث و مباحثہ اور مشاورت کے لئے بھی آمادہ نہیں ہے۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں پاکستان کے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے حب الوطنی پر مبنی درد مندانہ خطاب میں کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ جب ہمیں اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نیا چارٹر آف گورننس تشکیل دینا چاہئے تاکہ ریاست کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے فعال اور متحرک کردار ادا کرسکیں۔ انہوں نے درست فرمایا کہ اگر ہم غلطیوں کو دہراتے رہے اور ریاست کے ادارے سچائی کی بنیاد پر کسی مفاہمت پر نہ پہنچے تو پاکستان بدستور جمود کا شکار رہے گا۔ انہوں نے صدر پاکستان جناب ڈاکٹر علوی کو مشورہ دیا کہ وہ تمام ریاستی اداروں کے سربراہوں کا ایک مشاورتی اجلاس بلائیں جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی شریک ہوں جو پوری سنجیدگی اور حب الوطنی کے ساتھ ریاست کے موجودہ زمینی حقائق کا جائزہ لے کر اور تاریخ کی غلطیوں سے سیکھ کر ایسے لائحہ عمل پر اتفاق کر لیں جس سے پاکستان کے تمام ادارے حقیقی معنوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر ڈال سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سویلین بالادستی کے ساتھ احتساب اور قانون کی حکمرانی بھی لازم ہوتے ہیں۔
جمہوری معاشروں میں فوجی عدالتیں سوالیہ نشان ہوتی ہیں ہمیں اپنے عدالتی نظام کو اس قدر فعال اور متحرک بنانا ہوگا کہ فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ چیف جسٹس پاکستان نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ عدالتوں میں پڑے 19 لاکھ مقدمات کو نمٹانے کے لئے نتیجہ خیز عدالتی پالیسی ترتیب دیں گے جس کی روشنی میں تاخیری حربوں جھوٹی گواہیوں اور جعلی مقدمات پر قابو پایا جائے گا۔
چیف جسٹس پاکستان کا پرمغز اور بروقت خطاب پاکستانی قوم اور ریاستی اداروں کے لئے ویک اپ کال کی حیثیت رکھتا ہے۔آئیڈیل ازم بہت اچھی چیز ہے مگر جب ریاست اور ریاست کے ادارے پسماندہ ہوں تو پھر زمینی حقائق کو اہمیت دینی پڑتی ہے آئیڈیل ازم میں یقین رکھنے والے نیک نیت ہیں مگر وہ زمینی حقائق کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دانشور سیاستدان سینیٹر رضا ربانی پہلے ہی نیشنل ڈائیلاگ کی بات کر چکے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ وہ اپنی تجویز کو آگے بڑھانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتے اور ان کی صائب رائے صرف سیاسی بیان بن کر رہ جاتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کا ماضی اور ان کے خاندانی روایات گواہ ہیں کہ وہ صرف شہرت کے لئے بیان نہیں دیتے لہٰذا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے قومی خطاب پر عملدرآمد کرانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے اور چارٹر آف گورننس کی تکمیل اور تشکیل کے لئے ایسے اہل اور محب وطن شخصیات کا تعاون حاصل کریں گے جن کی دھرتی کے ساتھ کمٹمنٹ لازوال ہو اور وہ قومی مفاد میں اپنی خدمات ریاست کو پیش کر سکتے ہیں۔
اگر چیف جسٹس پاکستان چارٹر آف گورننس کے خدوخال طے کرنے کے لئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دیں تو یہ ایک آئینی اور قانونی اقدام ہوگا اور ٹاسک فورس کی سفارشات صدر پاکستان کی قیادت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں پیش کی جا سکیں گی۔
چیف جسٹس پاکستان کے قریبی دوست اس امر کی یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ انشاء اللہ 2019ء قومی اصلاحات کا سال ثابت ہو گا اور ایسی اصلاحات نافذ کی جائیں گی جس سے ریاست کا آئینی اور سیاسی قبلہ درست ہو جائے گا اور ریاست کے تمام ادارے اک نئے عزم اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی ترقی کے لیے سرگرم اور متحرک کردار ادا کریں گے۔ نئے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ چیف جسٹس پاکستان کے ویژن کو پورا کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں، ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں اور ان سے مشاورت کر کے چارٹر آف گورننس تشکیل دیں اگر وہ اس سلسلے میں کامیاب ہوگئے تو ان کو تاریخ میں ایک انقلابی اور حقیقی قومی لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
پولیس ریاست کے نظم ونسق کو چلانے کا بنیادی ادارہ ہے۔ حکومت اور عدلیہ دونوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس ادارے کو مثالی اور معیاری بنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں۔ پاکستان کے پاس جناب طارق کھوسہ‘ جناب ڈاکٹر شعیب سڈل اور جناب ناصر درانی کی صورت میں ایسے ماہرین پولیس موجود ہیں جو اس ادارے کی اندرونی کمزوریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کو آزاد خودمختار اور فعال بنانے کے لئے بامعنی اور بامقصد سفارشات مرتب کرسکتے ہیں۔ معیاری اور مثالی پولیس کے بغیر پاکستان میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا ، جب تک پولیس کو آزاد نہیں کیا جاتا اور اس میں سے سیاسی مداخلت ختم نہیں کی جاتی، پولیس کی بھرتی میرٹ اور صرف میرٹ پر نہیں کی جاتی ہے، پولیس کا یہ ادارہ کبھی اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا نہیں کر سکے گا اور امن و امان کا قیام ایک خواب ہی رہے گا ۔
وزیراعظم پاکستان نے پاکستانی قوم سے جو بڑے وعدے کیے تھے ان میں پولیس کو معیاری اور مثالی بنانے کا وعدہ بھی شامل تھا مگر افسوس چھ مہینے گزرنے کے باوجود انہوں نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا اور نہ ہی پولیس اصلاحات کو اپنی ترجیح بنایا ہے۔ پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ قومی مسائل کے سلسلے میں دلچسپی لیں اور اس سلسلے میں حکومت پر اپنا اخلاقی اور سماجی دباؤ بڑھائیں تاکہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور مزید وقت ضائع کئے بغیر ان انقلابی عوامی اور قومی اصلاحات کو اپنی ترجیح بنائے جن کے بغیر ریاست کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتی وہ جمود کا شکار ہی رہے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024