بچوں کی شرح اموات میں اضافہ
ہم میں بہت سے لوگ اس تلخ حقیقت سے شاید واقف ہیں کہ پاکستان میں سالانہ، انگنت شیرخوار بچے، اپنی زندگی کے پہلے ہی سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کچھ عرصہ ’’جی ‘‘ بھی لیں تو ’’پانچ سال‘‘ پورے کرنا محال ہیں، بہت سے تو ایسے بھی ہیں جو خوبصورت زندگی کا خواب، بند آنکھوں میں سجائے واپس لوٹ جاتے ہیں، یعنی کہ پیدا ہوتے ہی، یا پھر ’’رحم مادر‘‘ میں ہوتے ہوئے ہی ‘‘ اپنے خالقی حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ بچوں کی اموات کادیرینہ مسئلہ پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے، بالخصوص توزائیدہ بچوں کی ’’شرح اموات‘‘ پریشان کن حد تک بڑھی ہوئی ہیں، دوسری جانب ان کی صحت سے متعلق شماریات، معلومات اور اقدامات انتہائی ناقص صورتحال کا شکار نظر آتے ہیں۔ دیہی اورپسماندہ علاقوں میں موجود لوگ صحت سے وابستہ علاج و معالجے کی جس ’’نازک‘‘ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ان علاقوں میں موجود بچوں کو لاحق (نمایاں) بیماریوں میں اسہال، نمونیہ، خسرہ، ملیریا اور غذائی قلت سے پیدا ہونے والے مرض عام ہیں، جبکہ نوزائیدہ بچوں میں قبل از وقت پیدائش، دم گھٹنا، تشنج ، خون اور جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریاں، موت کی وجہ بنتی ہیں۔ اب تو چکن گونیہ، روٹا وائرس، ڈینگی اور AIDS HIV/ جیسے مہلک امراض بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔ صحت مند زندگی کا خواب پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لاچار بچوں کے ئے محض ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ حکومت چاہئے کہ وہ زچہ بچہ کے لئے طبی سہولوں میں اضافہ کی کوئی راہ نکالے تاکہ بچوں کی اموات میں کمی ہو سکے۔ (فرحین لاہور)