ویسے تو یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ اپنے مزاج، جذبات، احساسات، کیفیات کا کسی نہ کسی طور اظہار کیئے رکھتا ہے لیکن اکثر اوقات دیکھنے میں یہ اتا ہے کہ انسان کی زندگی میں دو ایسے مقامات آتے ہیں جہاں اسکی قوت گویائی اسطرح سلب ہو جاتی ہے اسکے بولنے کی طاقت اسطرح جواب دے جاتی ہے اسکی زبان اس طرح گنگ ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات اپنے احساسات اپنی کفیت کے متعلق ایک لفظ بھی ادا نہیں کر پاتا۔ ایسی کیفیت کو عمومی زبان میں اہل علم کی زبان میں سکتہ کی حالت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ کیفیت اکثر و بیشتر ایسے موقعوں پر دیکھنے کو ملتی ہے جب انسان کو یاں تو غیر متوقع طور پر انتہائی خوشی مل جائے اور یاں پھر جب اسے انتہائی رنج، غم، دْکھ اور الم کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ کچھ اسطرح کا معاملہ اج اپنے ساتھ بھی پیش آ رہا ہے جب آنکھوں کے سامنے ساہیوال میں معصوم انسانی جانوں کے بے رحمانہ قتل کی وڈیو بار بار اپنی فکری اساس کے منہ پر لگاتار طمانچہ زنی میں مصروف ایک ہی سوال دھرائے جا رہی ہے کہ جب ہر معاشرے میں ریاست کا تصور ایک ماں جیسا ہوتا ہے تو پھر ریاستی اہلکاروں نے جو رویہ ان معصوموں کے ساتھ اپنایا ہے وہ ایک ماں کے شان شایان ہے یا پھر ایک ڈائن کا وطیرہ جو اپنے ہی بچوں کو نگل لیتی ہے۔ قارئین میری زبان گنگ ہے میرے حواس جواب دے گئے ہیں۔ میرے پاس کوئی الفاظ نہیں ہیں جن میں اس سوال کا جواب دیا جا سکے لیکن ایسے میں سوشل میڈیا پر جناب امیر السلام ہاشمی کا ایک نہایت ہی دْکھ بھرا کلام ہاتھ لگا ہے جسکا ایک ایک لفظ اس درد کے ساتھ لکھا گیا ہے اور جسے بدر نذیر بابر صاحب نے اس سْوز بھرے ترنم کے ساتھ ادا کیا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یقیناً اسے سْن کر مملکتِ پاکستان کا تصور پیش کرنے والے مفکر مرحوم علامہ اقبال اور اس مملکت کے وجود کو عملی جامہ پہنانے والی صدا بہار شخصیت قائداعظم کی روح بھی کانپ اْٹھی ہو گی کہ میرے مولا اس دیس کو بنانے کی کوشش ہم نے کن کیلئے کی۔ کلام کچھ اس طرح ہے
دہقان تو مَر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کے جلاؤں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنج شک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
ہر داڑھی میں تنکا، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقین سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
شاہین کا جہاںآج گرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مْلاں سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہین میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں؟
مَر مَر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو۔۔۔۔کہیں نام کو کردار نہیں ہے
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتارتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق اب بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ، جس سے زمین لرز جاتی تھی یارو۔۔۔
اک بار تھا، ہم چھٹ گئے اس بارِ گراں سے
جھگڑے ہیں یہاں، صوبوں کے، ذاتوں کے، نسب کے
اْگتے ہیں تہہ سایہ گْل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا۔۔ مگر اسکا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مَر مَر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں؟
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اْٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ اْمم سو گئی طاؤس پہ آ کر۔۔۔۔
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی، پنجاب کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
راقم تو لاجواب ہے اگر معاشرے کو کوئی اسکا جواب دے سکتا ہے تو بہت بہتر۔ راقم کو جو فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں ہم ایک ARAB SPRING کی جانب تو نہیں بڑھ رہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024