ویسے تو وطن عزیز روزانہ ہی کسی نہ کسی حادثے ، سانحہ کا شکار رہتا ہے ، مگر آفرین اس قوم پر جو ہر سانحہ کو ہنس کر آگے بڑھ جاتی ہے ۔ یہ آفرین جو عوام کیلئے ہے ۔ دراصل سانحہ سہنے کی آفرین کسی بھی حکومت یا سیاست دان کیلئے نہیںانکے لئے لفظ بے حسی ہے اس بے حسی میں انکے لئے کسی بھی سانحہ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی انکا کام ہر حال میں سیاست چمکانا ہوتا ہے اللہ نے انہیں توفیق ہی اس بات کی دی ہے۔ یہ ملک جو ان سیاست دانوں ، طالعہ آزمائو ں کے باپ کی جاگیر ہے اور وہاں حزب اختلاف ، حزب اقتدار صرف وطن عزیز کی دولت کی بندر بانٹ کا ایک ذریعہ ہے۔ سارہ جھگڑا ایک مراعات یافتہ طبقے کا دوسرے مراعات یافتہ طبقے سے بند بانٹ کا جھگڑا ہے ۔ اس میں عوام کو پولیس سی ٹی ڈی وغیرہ وغیرہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اگر کسی مراعات والے کے طبقے سے کوئی سنگین جرم بھی کردے تو اسے آزادی ہے۔ یہ عوام کی ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا ہے دن دھاڑے قتل کرکے جیل اور عدالت جاتے آتے وہ کس طرح ہاتھ ہلا کر victoryکا نشان بنا رہے ہوتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے پی ایچ ڈی فرسٹ کلاس میں پاس کرکے آرہے ہیں ۔وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ اس ملک کے قانو ن کی پیچیدگیاں ، کمزوریاںانکا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ،رائے انوار جس پر الزام ہے کہ چار سو ماروائے عدالت قتل کئے ہیں ، سیاست دانوںکا آلہ کار تھا ، ایک قتل پر قابل گرفت اسلئے ہوگیا کہ جو نوجوان اپنی آخری واردات میں مارا ، وہ قبیلہ اپنے دشمن کو پاتال میں جاکر بھی انجام کو پہنچاتا ہے اسلئے یہ گرفتاری یا سزا نہیں بلکہ اسکو مقتول کے خاندان سے دور حفاظت میں رکھا گیا ہے ، یہ تو مقتول کے خاندان کی مہربانی ہے کہ اس نے عدالت کا رخ کرلیا مگر ہمارا قانون۔۔۔۔اس کے فیصلے تک تو ملزم اپنی طبعی موت مر جاتا ہے ۔ملزم جس طرح اپنے پیٹی بند بھائیوںکے ہمراہ فخر سے عدالت میں آتاہے لگتا ہے پاکستان کے قانونی اداروںپر احسان کررہا ہے ۔ نصیراللہ بابر مرحوم نے اسطرح کے قتل کی بنیادرکھی ، اور بوری بند لاشیں کچھ انکی جانب سے اورکچھ ایم کیوایم کے متحارب گروپوں کی جانب سے کراچی میں خوف ہراس پھیلاتی رہیں ہیں ، رائے انور بھی اسی راستے کے مسافر ہیں۔ اگر الزام صحیح ہے تو وہ عو ام کے خون کو پانی سے زیادہ سستا سمجھتے ہیں ۔مندرجہ بالا تحریر دراصل سے میں اپنے آپکو اس سانحہ کی مذمت لکھنے کیلئے تیار کررہا ہوں جس نے افسوس سے پورے پاکستان کے عوام کی نیندیں حرام کردی ہیں سانحہ کی مذمت اور اسکے کرداروں کی مذمت کرنے کیلئے الفاظ ختم ہوچلے ہیں ۔ دانش مندوں کا کہنا ہے کہ ہمیشہ سچ بولو تاکہ ایک ہی بات کرسکوں ، جھوٹ بولوگے تو ہر لمحہ بیان میں فرق ہوگا ۔یہ صورتحال ساہیوال کے واقع میں دیکھنے میں آئی۔ پہلی دفعہ میڈیا کی تعریف کرنے کو دل چاہا ہے کہ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری پوری نہ کرتا ، نہتے مقتولوں کے یتیم بچے زندہ نہ بچتے ، تو راجہ بشارت وزیر قانوں پنچاب کا بیان کافی تھا معاملے کی فائل بند کرنے کیلئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ابتدائی رپورٹ پر بیان دے دیا مگرآگے چل کر معاملے کی سنگینی کر بھانپ کر وہ خاموش ہوگئے ، پنجاب کے وزیر اطلاعات چوہان جن پر رو زانہ پانچ نمازوںکے ساتھ لگتا ہے سات مرتبہ ٹیلی ویزن پر بھی آنا ضروری ہے ، وہ بھی خلاف توقع خاموش رہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ اس وقت چند اختلاف لئے ہوئے مسلم لیگ ق کے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کو میڈیا کے آگے کردیا جنہوںنے تقریبا سی ٹی ڈی کی تحریر کردہ ایک جھوٹ کا پلندہ پڑھ کر سنا دیا ۔جس پر عوامی ردعمل آناہی تھا ۔ ٹی وی پر میڈیا نے بار بار دکھایا کہ کسطرح صحت مند سی ٹی ڈی کے کارندوںنے معصوم بچوں کو جن میں ایک زخمی اور ایک کے ہاتھ میں دودھ کی بوتل تھی اور کپڑوںپر والدین کے خون کے دھبے ، زخمی بچہ چیخ رہا تھا ’’ ہائے میری ٹانگ ‘ اور سی ٹی ڈی کے کارندے موقع واردات سے جلد روانہ ہونے کیلئے جلد بازی میں ایک ہی ہاتھ سے دونوں کو اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ بچے اتنے معصوم تھے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ ہو کیا رہا ہے ، گاڑی میں بقول سی ٹی ڈی کے دہشت گرد تھے مگر لاش پر لگی کارمیں پڑی لاش جس پر سیٹ بیلٹ لگی تھی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ یہ اتنا مشاق دہشت گرد نہیں ہوسکتا جو سیٹ بیلٹ لگا کر قانون نافذکرنیوالے اداروںپر مبینہ فائرنگ جسکی گولیوں کے خول بھی نہ مل سکے وہ فائرنگ کررہا تھا ۔ تمام سیاست دان اپنی اپنی دوکان چمکانے لگ پڑے ۔ سانحہ کی مذمت کرنے کے بجائے یہ کہا جارہا ہے کہ ماڈل ٹائون واقع میں یہ نہیں کیا گیا۔ وہ نہیں کیا گیا ، وزیراعظم کی پرانی تقاریر دکھائی جارہی ہیں جس میںماڈل ٹائون واقع میں وہ مطالبہ کررہے تھے کہ وزیر اعلی استعفے دیں وغیرہ وغیرہ ۔۔ یہ استعفے وغیرہ وہاںہوتے ہیں جہاں بقول وزیر اعظم کے مہذب معاشرہ اور حکومت ہوتی ہے ۔ اب اگر وزیر اعظم یا تحریک انصاف کو اپنی حکومت کی ایک مہذب حکومت کا خطاب دینا ہے تو وزیر اعلی سے استعفے دلوادیں مہذب حکومت ہونے کی مہر لگ جائیگی ، اس جھگڑے میں وہ اشخاص سزا سے نہ بچ جائیں جنہوںنے معصوم لوگوں کو قتل کیا ، انہوں نے قتل چار لوگوںکا نہیں بلکہ انکے بچوں کے مستقبل کا بھی قتل کیا ہے جسکا کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ اعلان اچھا تو ہے کہ ریاست ان بچوںکی کفالت کرے گی مگر اس زیادہ ضروری امن و امان ، اور اپنے انجام سے مطمین مجرموں لوگوںکی ناک میں نکیل ڈالنا ضروری ہے ، ورنہ حکومت کس کس کی کفالت اپنے ذمے لے گی ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024