ظالم اور مظلوم
کسی سیانے کا کہنا ہے کہ جب انسان انسانیت ترک کر دے تو اسے خوف سے بچانا مشکل ہے۔ زیادہ طاقت ور بننے کا جنون بھی انسان کو دوسروں کے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں معصوم نقیب اللہ محسود کی ہلاکت نے طاقت کے نشے میں چور ایس ایس پی راؤ انوار کو بے نقاب کیا ہے۔ جو اس سے پہلے بھی خون کی ہولی کھیلتا رہا ہے۔ انسانی خون کا پیاسا رہا ہے۔ شاہ لطیف کالونی میں قتل کے اس لرزہ خیز واقعہ کے بعد سے خوف اور بے یقینی نے ملک بھر کے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ عوام کے دل خوف سے سہمے ہوئے ہیں۔ سچی بات کہنے سے زبان رکتی نہیں کہ روز ایک نیا دل خراش واقعہ رونما ہوتا ہے اور روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ قومی منظر نامے کو دیکھ کر دل کڑھتا، خون کھولتا اور جسم لرزتا ہے۔ کس کس کو قصور وار ٹھہرائیں؟ کس کس پر فرد جرم عائد کریں؟ کس کس کو مورد الزام ٹھہرائیں؟ خوف ہے کہ ہر لمحہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سو بے یقینی کے بادل ہم پر سایہ فگن ہیں۔ بظاہر حفاظت کی محفوظ چھتری میسر ہونے کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
حال ہی میں قصور میں کم سن طالبہ پر ظلم و ستم کی جو تاریخ رقم ہوئی ہے، اس نے پوری قوم کو اداس کر دیا ہے۔ اس دل سوز اور دل خراش واقعہ کے بعد خیال تھا کہ بچوّں پر جنسی تشدد کے واقعات میں کمی آ جائے گی، لیکن قصور کے سانحہ کے بعد یہ سلسلہ ابھی تک یعنی آج کے روز تک تھما ہی نہیں۔ اس میں کمی بھی نہیں آ سکی۔ ابھی گزشتہ روز کے اخبارات میں صرف جنوبی پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے پانچ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے، جب کہ جو منظر عام پر آنے سے پہلے ہی پردوں میں خوف کے مارے چھپا دیے جاتے ہیں۔ وہ اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتی بے حسی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی قسم کے کوئی ہنگامی اور انقلابی اقدامات کرنے سے ادارے گریزاں ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم لاوارث قوم ہیں۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک بے سمت ہجوم ہیں، جس کا کوئی رہنما ہی نہیں۔ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہیں کہ جس کا کوئی گڈریا ہی نہیں۔ بس بے نشان و بے منزل سفر جاری ہے۔ سفر جاری ہے اور بس جاری ہے۔ راہزنون سے لٹتے جا رہے ہیں۔ نہ عزت محفوظ ہے اور نہ آبرو۔۔۔ بس سفر جاری منزل ہے۔ کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا ملک انتشار اور افراتفری کا نمونہ بن گیا ہے۔ دہشت اور وحشت کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔
سوچتا ہوں انسانیت پر ایسا کڑا وقت بھی آنا لکھا تھا۔ بچے غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ بچوں کی عزتیں اپنے عزیزوں اور پڑوسیوں سے محفوظ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے پرائے کا فرق مٹ گیا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر اپنے ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ خون کا سفید ہونا سنا تو بہت تھا مگر دیکھا اب ہے۔ بات شروع ہوئی تھی نقیب اللہ محسود کے پولیس کے ہاتھوں مبینہ قتل سے، اب جا پہنچی ہے، بچوں پر ڈھائے جانے والے سفاک مظالم تک، المیہ ہے کہ معاشرہ کس قدر پستی میں گرتا اور دھنستا جا رہا ہے۔ اب شروع میں ذکر کیے گئے واقعہ پر عمیق نظر ڈالیے۔ دیکھیے کہ کراچی میں شاہ لطیف ٹاؤن کے ایک خوب صورت نوجوان نقیب اللہ محسود کو کس طرح محض شک کی بنا پر پولیس گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اسے جعلی پولیس مقابلے میں آر پار کر دیا گیا۔ حد ہے کہ ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ روز افزوں اس طرح کے ستم ڈھائے جاتے رہے تو انسان مولی گاجر کی طرح کٹنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔ قانون نام کی کوئی چیز ملک میں ہے ہی نہیں۔ اقتدار، اقتدار اور بس اقتدار کی ہوس میں گھرے اور لتھڑے سیاست دان دست و گریباں ہیں۔ اپنے مستقبل کے سہانے سپنے دیکھنے اور انہیں شرمندہ تعبیر کرنے کے خواہاں سیاست دان عوام سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ ہر محکمہ اپنی خستہ حالی پر نوحہ کناں ہے۔ عوام تختہ مشق بنے ہیں۔ ملک کا کوئی گوشہ اور کوئی حصہ بھی امن کا گہوارہ نہیں۔ ملک چوروں اور ڈاکوؤں کی آماج گاہ بنا ہے۔ کراچی ایک طویل عرصے سے پولیس سٹیٹ بنا ہے۔ کبھی یہاں کے سیاسی و عسکری ونگ مظالم کی تاریخ رقم کرتے تھے۔ اب پولیس نے یہ کام اپنے زمہ لے لیا ہے۔ کبھی رینجر، ظالم کی سرکوبی کے لیے تو کبھی پولیس مجرموں کے تعاقب میں متحرک نظر آتی ہے۔ اس دشت میں مجرموں اور گناہ گاروں کے ساتھ معصوم بھی مارے جارہے ہیں۔ قانون اور انصاف کے رکھوالے قانون شکنی اور بے انصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں مسرت کی بات یہ ہے کہ نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے زمہ دار ایس ایس پی راؤ انوار معطل کیے جا چکے ہیں۔